Blog
Books
Search Hadith

نسب پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل چھوڑ دینے سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۸۵۷)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ عَلٰی ھٰذَا الْمِنْبَرِ: ((مَابَالُ رِجَالٍ، یَقُوْلُوْنَ : اِنَّ رَحِمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَاتَنْفَعُ قَوْمَہُ، بَلیٰ! وَاللّٰہِ، اِنَّ رَحِمِیْ مَوْصُوْلَۃٌ فِیْ الدُّنْیَاوَالْآخِرَۃِ، وَاِنِّیْ اَیُّھَا النَّاسُ فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ، فَاِذَا جِئْتُمْ)) قَالَ رَجُلٌ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنَا فُلَانٌ، وَقَالَ اَخُوْہُ: اَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ لَھْمُ: ((اَمَّا النَّسَبُ فَقَدْ عَرَفْتُہُ، وَلٰکِنَّکُمْ اَحْدَثْتُمْ بَعْدِیْ وَارْتَدَدْتُمُ الْقَھْقَرٰی۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۵۵)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رشتہ داری آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ کیوں نہیں، اللہ کی قسم ہے، میری رشتہ داری دنیا و آخرت میں ملی ہوئی ہو گی، لوگو! میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، پس جب تم وہاں آؤ گے۔ اتنے میں ایک آدمی کہے گا: اے اللہ کے رسول! میں فلاں ہوں، اور اس کا بھائی کہے گا: میں فلاں بن فلاں ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمائیں: نسب کو تو میں نے پہچان لیا ہے، لیکن تم نے میرے بعد نئے امور ایجاد کر لیے اور پچھلے پاؤں پلٹ گئے۔
Haidth Number: 9857
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۸۵۷) تخریج: صحیح لغیرہ، أخرجہ ابویعلی: ۱۲۳۸، والطیالسی: ۲۲۲۱ (انظر: ۱۱۱۳۸)

Wazahat

فوائد:… رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((کُلُّ سَبَبٍ مُنْقَطِعٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِلَّا سَبَبِیْ وَنَسَبِیْ۔)) قیامت کے روز ہر رشتہ (اور تعلق و قرابت) منقطع ہو جائے گا، سوائے میرے ازدواجی اور نسبی رشتے کے۔ یہ حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباس، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے۔ (معجم کبیر للطبرانی: ۳/ ۱۲۹/ ۱ من حدیث ابن عباس، تفصیل کے لیے دیکھئے: صحیحہ:۲۰۳۶) شرح:…سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جو حدیث مروی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: ((کُلُّ نَسَبٍ وَ صِھْرٍ مُنْقَطع یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا نسَبی و صِھْری۔)) (ابن عساکر: ۱۹/ ۶۰/ ۲، وھذا اسناد ضعیف جدا) … ہر نسبی اور ازدواجی رشتہ منقطع ہو جائے گا، سوائے میرے نسبی اور ازدواجی رشتے کے۔ درج ذیل تفصیل سے اس حدیث کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے: عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف ان کی بیٹی سے، جو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بطن سے تھی، سے شادی کرنے کا بار بار پیغام بھیجا۔ ایک دن انھوں نے خود کہا: اے ابو الحسن! آپ کی طرف کثرت سے پیغام بھیجنے کی وجہ وہ حدیث ہے، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((کلُّ سَبَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ یَوْمَ الْقِیامَۃِ، اِلَّا سَبَبِیْ وَنَسَبِیْ۔)) … قیامت کے روز ہر رشتہ (اور تعلق و قرابت) منقطع ہو جائے گا، سوائے میرے ازدواجی اور نسبی رشتے کے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اہل بیت لوگوں کے ساتھ میری ازدواجی قرابت ہونی چاہیے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چلے گئے اور اپنی اس بیٹی کو میک اپ کرنے کا حکم دیا اور پھر اس کو امیر المومنین سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیج دیا۔ جب انھوں نے اس کو دیکھا تو اس کی طرف کھڑے ہوئے اور اس کی پنڈلی کو پکڑا اور کہا: اپنے باپ سے کہہ دینا کہ میں راضی ہوں، میں راضی ہوں، میں راضی ہوں۔ جب وہ بچی اپنے باپ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچی تو انھوں نے پوچھا: امیر المومنین نے تجھے کیا کہا؟ اس نے کہا: انھوں نے مجھے بلایا اور قبول کیا، جب میں کھڑی ہوئی تو انھوں نے میری پنڈلی کو پکڑا اور کہا: اپنے ابو سے کہہ دینا کہ میں راضی ہوں۔ پھر انھوں نے ان سے اس کا نکاح کر دیا، اس کے بطن سے زید بن عمر پیدا ہوا، وہ نوجوانی تک زندہ رہے، پھر فوت ہو گئے۔ (اخرجہ ابوبکر الشافعی فی الفوائد : ۷۳/ ۲۵۷/ ۱، وابن عدی: ۶/ ۲، والخطیب فی التاریخ : ۶/ ۱۸۲) سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دل میں آل رسول کییہ عزت تھی، آگے سے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ان کی تمنا پوری کرتے ہوئے ان کا احترام بجا لانے کی حد کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہستیوں کے لیے {رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ} کے لقب کا کیا خوب انتخاب کیا۔ اس بحث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نسب کا اعزاز روزِ قیامت بھی باقی رہے گا، باقی کسی کی قومیت اور برادری کو کوئی شرف حاصل نہیں ہو گا، بہرحال نجات کا انحصار اعمالِ صالحہ پر ہو گا۔ اس فرق کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنا آسان ہو جائے گا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود اپنے عہد میں بعض قبیلوں کو دوسری بعض برادریوں پر فضیلت والا قرار دیتے تھے اور اس بنا پر ان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں فرق بھی کرتے تھے، یہ دراصل ان بعض قبیلوں کا اعزاز تھا، لیکن کسی قبیلےوالے کے جرم اور نیکی کے سلسلے میں اس قانون کی رعایت نہیں کی گئی،یہاں تک کہ بنو مخزوم کی خاتون کا چوری کی وجہ سے ہاتھ کاٹ دیا گیا۔