Blog
Books
Search Hadith

ان امور کا بیان، جن میں جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے

۔ (۹۸۹۷)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ اَنَّھَا سَمِعَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُیَقُوْلُ : ((یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا، مَا یَحْمِلُکُمْ عَلٰی اَنْ تَتَابَعُوْا فِیْ الْکَذِبِ کَمَا یَتَتَابَعُ الْفَرَاشُ فِیْ النَّارِ، کُلُّ الْکَذِبِ یُکْتَبُ عَلَی ابْنِ آدَمَ اِلَّا ثَلَاثَ خِصَالٍ، رَجُلٌ کَذَبَ عَلَی امْرَاَتِہِ لِیُرْضِیَھَا، اَوْ رَجُلٌ کَذَبَ فِیْ خَدِیْعَۃِ حَرْبٍ، اَوْ رَجُلٌ کَذَبَ بَیْنَ امْرَاَیْـنِ مُسْلِمَیْنِ لِیُصْلِحَ بَیْنَھُمَا۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۲۲)

۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ایمان والو! تم لوگوں کو کون سی چیز اس طرح لگاتار جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتی ہے، جیسے پتنگے لگاتار آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں، ابن آدم پر اس کے ہر جھوٹ کو لکھ لیا جاتا ہے، ما سوائے تین امور کے، (۱) وہ خاوند جو اپنی بیوی سے جھوٹ بولتا ہے، تاکہ اس کو راضی رکھے، (۲) وہ آدمی جو جنگ میں دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اور (۳) وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔
Haidth Number: 9897
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۸۹۷) تخریج: صحیح دون الشطر الاول ای قولہ یا ایھا الذین آمنوا … فی النار ودون قولہ لیرضیھا ، أخرجہ الترمذی: ۱۹۳۹(انظر: ۲۷۵۷۰)

Wazahat

فوائد:… امام نووی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: جھوٹ یقینا ایک جرم ہے، تاہم بعض صورتوں میں جائز ہے، لیکن اس کی چند شرطیں ہیں، خلاصۂ تفصیلیہ ہے: مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ کلام ہے، ہر وہ مقصد جو پسندیدہ ہو اور اسے جھوٹ کے بغیر حاصل کرنا ممکن ہو، اس میں جھوٹ بولنا حرام ہے اور اگر جھوٹ بولے بغیراس کا حصول ناممکن ہو تو جھوٹ بولنا جائز ہے۔ اگر مقصود کا حاصل کرنا مباح اور جائز ہو تو جھوٹ بولنا بھی مباح ہو گا اور اگر مقصود واجب ہو گا، تو جھوٹ بولنا بھی واجب ہو گا ، جیسے ایک ظالم کسی مسلمان کو قتل کرنا یا اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور وہ اپنا جان ومال بچانے کے لیے چھپ جاتا ہے۔ اگراسے تلاش کرنے کے لیے اس کے بارے میں علم رکھنے والے فرد سے پوچھا جائے تو اس کا جھوٹ بولنا واجب ہے، تاکہ مظلوم مسلمان کے جان و مال کو بچایا جا سکے، یہی معاملہ امانت کا ہے۔ بہرحال اس قسم کے تمام معاملات میںزیادہ محتاط طریقہ توریہ کرنا ہے، توریے کا مطلب یہ ہے کہ جواب دیتے وقت ایسی ذومعنی گفتگو کی جائے ، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی اور کلام کرنے والا اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے۔ (ریاض الصالحین: باب بیان ما یجوز من الکذب) مثلا: مذکورہ بالا صورت میں جب مظلوم مسلمان کی بابت دریافت کیا جائے تو وہ جواب دے: اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ یہ توریہ ہے جس کے ظاہری مفہوم سے پوچھنے والے کو دھوکہ ہو رہا ہے اور اس کا باطنی مفہوم درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ حدیث ِ مبارکہ میں تین مقامات پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، بسا اوقات اگر ان تین مقامات پر خلافِ واقعہ بات نہ کی جائے تو بہت زیادہ نقصان ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ معاشرے کو باہمی بغض و عناد اور جنگ و جدل سے بچانے کے لیے صلح کروانا ضروری ہے، لیکن صلح کروانے والے افراد جانتے ہیں کہ دوریوں کو قربتوں میں بدلنے کے لیے اور بغض و عناد کا زنگ اتارنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا ہے، ہر فریق کے سامنے اس کی طرفداری کرنا پڑتی ہے، ہر فریق کے سامنے دوسرے فریق کے حوالے سے خلافِ حقیقت باتیں کرنا پڑتی ہیں۔ لیکن شریعت نے عظیم مقصد کو پانے کے لیے چھوٹے گناہ کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی معاملہ جنگ کا ہے کہ کہاں جانا ہے؟ کیوں جانا ہے؟ کب جانا ہے؟ کتنا ساز و سامان لے کر جانا ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اگر سب حقائق واضح کر دیے جائیں تو دشمنانِ اسلام جاسوسی کے ذریعے اسلام اور اہل اسلام دونوں کو زبردست مالی اور جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور دوسری بات یہ بھی کہ اگر ساری حقیقت کھول دی جائے تو بعض مجاہدین بزدلی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ رہا مسئلہ میاں بیوی کا، تو ان کے گھر کے معاملات کی اہمیت کسی مملکت کے امور سے کم نہیں ہے، معاشرتی زندگی میں ایسے موڑ بھی آ جاتے ہیں،جہاں ازدواجی تعلق برقرار رکھنے یا خوشگوار رکھنے یا اولاد کی خاطر خلاف ِ واقعہ بات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تاہم ان رخصتوں کا مطلبیہ نہیں کہ علی الاطلاق جھوٹ بولنے کی رخصت نکال لی جائے۔ جھوٹ بہرحال جھوٹ ہے اور کبیرہ گناہ ہے، جواز کی صورتیں پیدا کرنے والوں کو محتاط رہنا چاہئے۔ واللہ اعلم گھر وں کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے، اس رخصت سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کا اچھا ہونا انتہائی ضروری ہے، وگرنہ گھر کے ماحول میں فساد رہے گا اور بچے صحیح تربیت سے محروم رہیں گے۔