Blog
Books
Search Hadith

جھگڑا کرنے سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۹۲۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((جِدَالٌ فِیْ الْقُرْآنِ کُفْرٌ۔)) (مسند احمد: ۱۰۴۱۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔
Haidth Number: 9923
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۹۲۳) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ ابن ابی شیبۃ: ۱۰/ ۵۲۹ (انظر: ۱۰۴۱۴)

Wazahat

فوائد:… مجتہدین میں اختلافِ رائے تو یقینی ہے، اس حدیث میں مذکورہ اختلاف سے مراد اس کی ناجائز صورت ہے یا ایسا اختلاف مراد ہے، جو ناجائز صورت تک پہنچا دیتا ہے، جیسے نفس قرآن کے بارے میں اختلاف کرنا یا ایسے معنی میں اختلاف کرنا جس میں سرے سے اجتہاد ہی جائز نہ ہو یا ایسا اختلاف جو شک و شبہ اور فتنہ و فساد کا باعث بنے۔ شارح ابودود علامہ عظیم آبادی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں شک کرنا، یا اس موضوع پر غور و خوض کرنا کہ یہ کتاب محدَث ہے یا قدیم،یا متشابہ آیات میں مجادلانہ انداز میں بحث مباحثہ کرنا۔ ان سب امور کا نتیجہ انکار اور کفر کی صورت میں نکلتا ہے۔ یا قرآن مجید کی سات قراء ت پر مناظرہ کرنا اور کسی ایک قراء ت کو حق تسلیم کر لینا اوردوسری کو باطل یا تقدیر والی آیات پر غیر ضروری بحث کرنا یا ان آیات کو موضوعِ بحث بنا کر مضامینِ قرآن میں ٹکراؤ پیدا کرنا، جن کے معانی میں ظاہری طور پر تضاد پایا جاتا ہے۔ (عون المعبود: ۴۶۰۳ کے تحت، مفہوم پیش کیا گیا) شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ابن عبد البر نے سیدنا نواس بن سمعان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کے بعد کہا: اس کا معنییہ ہے کہ دو افراد ایک آیت کے بارے میں مجادلانہ گفتگو کریں، نتیجتاً ایک اس کا انکار کر دے، یا اس کو ردّ کرے یا اس کے بارے میں شک میں پڑ جائے۔ ایسا جھگڑا کرنا کفر ہے۔ (صحیحہ: ۳۴۴۷) ملا علی قاری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: جھگڑنے سے مراد ایک دوسرے کا ردّ کرنا ہے، مثلا ایک آدمی ایک آیت سے ایک استدلال کرتا ہے، جبکہ دوسرا آدمی کسی دوسری آیت سے اس کے الٹ استدلال کر کے اس پر ٹوٹ پڑتا ہے، حالانکہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو چاہیے کہ ایسی آیات میں جمع و تطبیق کی کوئی صورت پیدا کرے، تاکہ یہ نقطہ واضح ہو جائے کہ قرآن کا بعض بعض کی تصدیق کرتا ہے، اگر وہ مختلف آیات میں موافقت پیدا نہ کر سکے تو اس کو اپنے علم و فہم کی کوتاہی سمجھے اور ان آیات کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف منسوب کر دے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ}… (سورۃ النسائ: ۵۹)! پھر انھوں نے ایک مثال دی: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {قُلْ کُلُّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ} … (سورۃ النسائ: ۷۸) کہہ دیجئے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جبکہ دوسرے مقام پر فرمایا: {مَا اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ} … (سورۃ النسائ: ۷۹) تجھے جو بھلائی ملتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور جو برائی پہنچتی ہے تو تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔ تناقض: پہلی آیت میں ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا اور دوسری آیت میں برائی کو بندے کی طرف منسوب کیا گیا۔ (اگر دوسری آیات، احادیث اور اجماعِ امت کو دیکھا جائے تو سب سے بہترین جمع و تطبیقیہ ہے کہ برائی بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتی ہے، لیکنیہ برائی نفس کے گناہ کی عقوبت یا اس کا بدلہ ہوتی ہے، اس لیے اس کو نفس کی طرف منسوب کیا گیا،یعنییہ نفس کی غلطیوں کا نتیجہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا: {وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ} (سورۃ الشوریٰ: ۳۰) … تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے، اوربہت سے گناہ تو (اللہ) معاف ہی فرما دیتا ہے۔ ) لیکن اگر تقدیر کا منکر اس بات پر ڈٹ جائے کہ برائی کا خالق انسان خود ہے اور انکارِ تقدیر پر بطورِ دلیل پیش کرے، تو یہی مجادلہ ہو گا، جس سے منع کیا گیا۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۱/ ۴۹۳، مفہوم لکھا گیا ہے، بریکٹ والا پیراگراف راقم الحروف کی طرف سے بیان کیا گیا)۔ اگر کوئی مسلمان بعض آیات کو نہ سمجھ پا رہا ہو تو وہ درج ذیل حدیث کو مدنظر رکھے۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں کو سنا، وہ قرآن میں اختلاف کر رہے تھے اور ایک دوسرے کا ردّ کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِھٰذا: ضَرَبُوا کِتَابَ اللّٰہِ بَعْضَہٗبِبَعْضٍ،وَاِنَّمَانَزَلَکِتَابُ اللّٰہِ یُصَدِّقُ بَعْضُہٗبَعْضَا،فَـلَاتُکَذِّبُوْابَعْضَہٗبِبَعْضٍ،فَمَاعَلِمْتُمْمِنْہُفَقُوْلُوا،وَمَاجَھِلْتُمْفَکِلُوْہٗاِلٰی عَالِمِہِ۔)) … تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئے کہ وہ کتاب اللہ کے بعض حصے کو اس کے دوسرے حصے سے ٹکراتے تھے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اس طرح نازل ہوئی کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرتا ہے، پس تم اس کے ایک حصے کی وجہ سے اس کے دوسرے حصے کو نہ جھٹلاؤ۔ جتنا تم جان لو وہ بیان کرو، اور جو نہ جان سکو اس کو اس کے عالم کے سپرد کر دو۔ (احمد، ابن ماجہ)