Blog
Books
Search Hadith

بدگوئی اور جھوٹ پر مشتمل اور اللہ تعالیٰ سے دور کر دینے والے شعروں سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۹۴۱)۔ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ھٰرُوْنَ، اَنَا قَزَعَۃُ بْنُ سُوَیْدٍ الْبَاھِلِیِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ اَبِیْ الْاَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ، قَالَ اَبِیْ: ثَنَا الْاَشْیَبُ، فَقَالَ: عَنْ اَبِیْ عَاصِمٍ الْاَحْوَلِ، عَنْ اَبِیْ الْاَشْعَثِ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ اَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قَرَضَ بَیْتَ شِعْرٍ بَعْدَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃُ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۶۴)

۔ سیدنا شداد بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے نمازِ عشا کے بعد دو مصرعوں کا شعر مرتب دیا، اس کی اس رات کی نماز قبول نہیں ہو گی۔
Haidth Number: 9941
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۹۴۱) تخریج: اسنادہ ضعیف جدا، قزعۃ بن سوید شبہ المتروک، عاصم بن مخلد شیخ مجھول، أخرجہ البزار: ۲۰۹۴، والطبرانی فی الکبیر : ۷۱۳۳ (انظر: ۱۷۱۳۴)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث میں ان اشعار کی مذمت کی گئی ہے، جو بیہودہ، بے مقصد اور لایعنی ہوں، کیونکہ اچھے اشعار کو شریعت میں سراہا گیا ہے نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مجلس میں اچھے اشعار پڑھے جاتے رہے ہیں، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی اشعار پڑھے ہیں۔ امام نووی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: اس حدیث ِ مبارکہ کو اس شخص پر محمول کیا جائے گا جس نے اپنی توجہ اشعار پر مرکوز کر رکھی ہو اور قرآن و حدیث سے غافل ہو گیا ہے۔ امام قرطبی نے کہا: جس شخص پر شعری کلام غالب آ جائے تو اسے عام قوانین و ضوابط کے مطابق موردِ طعن و مذمت ٹھہرنا پڑتا ہے۔ … … امام ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اشعار کی معمولی مقدار کی رخصت دی ہے، کیونکہ اس حدیث کییہ توجیہ بیان کرنا مناسب ہے کہ اس کا تعلق اس شخص سے ہے جو شعروں کا ہی ہو کر رہ جائے اور قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کے ذکرو اذکار سے غافل ہو جائے۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم اور دوسرے شرعی علوم سے متصف ہو اور اس کے پاس کچھ اشعار بھی ہوں تو وہ اس حدیث کا مصداق نہیں بن سکتا ۔ (صحیحہ: ۳۳۶) دراصل کوئی کلام نثر یا شعر ہونے کی وجہ سے قابل تعریفیا قابل مذمت نہیں ہوتا، بلکہ اس کے اچھا یا برا ہونے کا دارومدار اس میں بیان کئے گئے مفہوم پر ہے ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((الشِّعْرُ بِمَنْزِلَۃِ الْکَلَامِ، حَسَنُہُ کَحَسَنِ الْکَلَامِ، وَقَبِیْحُہُ کَقَبِیْحِ الْکَلَامِ۔)) … اشعار، عام (نثر) کلام کی طرح ہیں،یعنی اچھے اشعار، اچھے کلام کی طرح ہیں اور برے اشعار، برے کلام کی طرح۔ (دارقطنی: ۴۹۰، صحیحہ: ۴۴۷) جس کلام میں دوسروں کی توہین کی گئی ہو، فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائی گئی ہو، شرک و بدعت کو فروغ دیا گیا ہو یا اس میں کسی انداز میں شریعت کے اصولوں کی مخالفت کی گئی ہو، تو وہ کلام قابل مذمت ہو گا، وہ شعر ہو یا نثر ہو۔ اس کے برعکس جو کلام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مشتمل ہو، اس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوصافِ حمیدہ کا بیان ہو،اس میں نیکی کی ترغیب اور برائی سے نفرت دلائی گئی ہو یا وہ کسی انداز میں شریعت کے اصولوں کی موافقت کر رہا ہو، تو وہ کلام قابل تعریف ہو گا، وہ شعروں کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں، بہرحال اشعار کی کثرت سے اجتناب کرنا چاہیے، ضرورت پڑے تو اچھے اشعار پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔