Blog
Books
Search Hadith

باب: بچہ کی طلاق کس عمر میں واقع ہو گی۔

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُجِزْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَجَازَهُ .

It was narrated from Ibn 'Umar that he presented himself to the Messenger of Allah on the Day of Uhud when he was fourteen years old, but he did not permit him (to join the army). He presented himself on the Day of Al-Khandaq when he was fifteen years old, and he permitted him (to join the army).

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ
انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر ( جنگ میں شریک ہونے کے لیے ) ۱۴ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں ( جنگ میں شرکت کی ) اجازت نہ دی۔ اور غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی ( اور مجاہدین میں شامل کر لیا ) ۔
Haidth Number: 3461
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3431

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، المغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، سنن ابی داود/الخراج ۱۶ (۲۹۵۷)، الحدود ۱۷ (۴۴۰۶)، (تحفة الأشراف: ۸۱۵۳)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲۳ (۱۸۶۸)، سنن الترمذی/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، الجہاد ۳۱ (۱۷۱۱)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۴ (۵۲۴۳)، مسند احمد (۲/۱۷)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہو جاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کر چکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔