Blog
Books
Search Hadith

باب: حاکم اور امیر کی فرماں برداری اور اطاعت پر بیعت کا بیان۔

أَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ،‏‏‏‏ فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا لَا نَخَافُ لَوْمَةَ لَائِمٍ .

It was narrated that 'Ubadah bin As-Samit said: We pledged to the Messenger of Allah to hear and obey, both in times of ease and hardship, when we felt energetic and when we felt tired, that we would not contend with the orders of whomever was entrusted with it, that we would was entrusted with it, that we would stand firm in the way of truth wherever we may be, and that we would not fear the blame of the blamers.

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشحالی و تنگی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی رہیں حق پر قائم رہیں، اور ( اس سلسلے میں ) ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈریں ۲؎۔
Haidth Number: 4154
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4149

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفتن ۲ (۷۰۵۶)، الأحکام ۴۳ (۷۱۹۹، ۷۲۰۰)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۷۰۹)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۱ (۲۸۶۶)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۸)، موطا امام مالک/الجھاد ۱ (۵)، مسند احمد (۳/۴۴۱، ۵/۳۱۶، ۳۱۸)، ویأتي فیما یلي: ۴۱۵۵-۴۱۵۹

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس کتاب میں ” بیعت “ سے متعلق جو بھی احکام بیان ہوئے ہیں، یہ واضح رہے کہ ان کا تعلق صرف خلیفہ وقت یا مسلم حکمراں یا اس کے نائبین کے ذریعہ اس کے لیے بیعت لینے سے ہے۔ عہد نبوی سے لے کر زمانہ خیرالقرون بلکہ بہت بعد تک ” بیعت “ سے ” سیاسی بیعت “ ہی مراد لی جاتی رہی، بعد میں جب تصوف کا بدعی چلن ہوا تو ” شیخ طریقت “ یا ” پیر و مرشد “ قسم کے لوگ بیعت کے صحیح معنی و مراد کو اپنے بدعی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے، یہ شرعی معنی کی تحریف ہے، نیز اسلامی فرقوں اور جماعتوں کے پیشواؤں نے بھی ” بیعت “ کے صحیح معنی کا غلط استعمال کیا ہے، فالحذر، الحذر۔ ۲؎ : یعنی : ہم آپ کی ” اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی اگر ان کی بات بھلائی کی ہو “ اطاعت آسانی و پریشانی ہر حال میں کریں گے، خواہ وہ بات ہمارے موافق ہو یا مخالف، اور اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جو آدمی بھی شرعی قانونی طور سے ولی الامر بنا دیا جائے ہم اس سے اس کے عہدہ کو چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے، وہ ولی الامر ہمارے فائدے کا معاملہ کرے یا اس کے کسی معاملہ میں ہمارا نقصان ہو، ہمارے غیروں کی ہم پر ترجیح ہو۔ “ اولیاء الأمور (اسلامی مملکت کے حکمرانوں) کے بارے میں سلف کا صحیح موقف اور منہج یہی ہے، اسی کی روشنی میں موجودہ اسلامی تنظیموں کو اپنے موقف ومنہج کا جائزہ لینا چاہیئے۔