Blog
Books
Search Hadith

باب: «مصراۃ» (تھن باندھے جانور) کی بیع منع ہے «مصراۃ»: اس اونٹنی یا بکری کو کہتے ہیں: جس کے تھن کو باندھ دیا جاتا ہے اور دو تین دن اسے دوہنا ترک کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دودھ اکٹھا ہوتا رہتا ہے، خریدنے والا اس کا دودھ زیادہ دیکھ کر اس کی قیمت بڑھا

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْرَجِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ،‏‏‏‏ وَلَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ،‏‏‏‏ مَنِ ابْتَاعَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ،‏‏‏‏ فَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا،‏‏‏‏ وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَرُدَّهَا رَدَّهَا وَمَعَهَا صَاعُ تَمْرٍ .

It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet said: Do not go out to meet the riders, and do not bind the udders of camels and seep. Whoever has boughty anything in that manner has two choices: If he whishes he may keep it, or if he wants to return it he may return it, along with a Sa of dates. (Sahih )

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے جا کر تجارتی قافلے سے مت ملو ۱؎ اور اونٹنیوں اور بکریوں کو ان کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ رکھو ۲؎، اگر کسی نے ایسا جانور خرید لیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو اسے لوٹا دے اور ( لوٹاتے وقت ) اس کے ساتھ ایک صاع کھجور دیدے“ ۳؎۔
Haidth Number: 4492
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4487

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۳۷۲۲) مسند احمد (۲/۲۴۲، ۲۴۳)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : چونکہ باہر سے آنے والے تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہو گا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔ ۲؎ : تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو «تصریہ» کہتے ہیں تاکہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ۳؎ : تاکہ وہ اس دودھ کا بدل بن سکے جو خریددار نے دوہ لیا ہے، نیز واضح رہے کہ کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جا سکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراؤ ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جا رہی ہے اس لیے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی، بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو صحیح اور ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل و قال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے۔ کسی قیاس سے اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔