Blog
Books
Search Hadith

باب: ناگہانی آفت سے ہونے والے خسارے کے معاوضے (بدلے) کا بیان۔

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،‏‏‏‏ عَنْ بُكَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا،‏‏‏‏ فَكَثُرَ دَيْنُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ ،‏‏‏‏ فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ .

it was narrated that Abu Sa' eed Al-Khudri said: At the time of the Messenger of Allah, a ma suffered loss of some fruit that he had purchased, and his debts increased. The Messenger of Allah said: 'give him charity.' So the people gave him charity, but that was not enough to pay of his debts. The Messenger of Allah said: Take what you find but you have no right to or than that.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی، چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے خیرات دو“، تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو آپ نے ( اس کے قرض خواہوں سے ) کہا: ”جو پا گئے ہو وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے“ ۱؎۔
Haidth Number: 4534
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4530

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۴ (البیوع۲۵) (۱۵۵۶)، سنن ابی داود/البیوع ۶۰ (۳۴۶۹)، سنن الترمذی/الزکاة ۲۴ (۶۵۵)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۵ (۲۳۵۶)، (تحفة الأشراف: ۴۲۷۰)، مسند احمد (۳/۵۶، ۵۸)، ویأتي عند المؤلف في باب ۹۵ برقم: ۴۶۸۲

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے۔ اس واقعہ میں پھلوں پر آفت آنے کا معاملہ پھلوں کے پک جانے کے بعد بیچنے پر ہوا تھا، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے بھرپائی کرانے کے بجائے عام لوگوں سے خیرات دینے کی اپیل کی، اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرض خواہ بقیہ قرض سے ہاتھ دھو لیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے درمیان بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے۔ حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت «وإن کان ذوعسرۃ فنظرۃ إلی میسرۃ» کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس (دیوالیہ) ہو جانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے، رہی اس حدیث کی یہ بات کہ ” اس کے علاوہ اب تم کو کچھ نہیں ملے گا “ تو یہ اس آدمی کے ساتھ خاص ہو سکتا ہے، کیونکہ اصولی بات وہی ہے جو اوپر گزری۔