Blog
Books
Search Hadith

باب: بیچنے والے کے پاس غیر موجود چیز کے بیچنے کا بیان۔

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ جَدِّهِ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ،‏‏‏‏ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ،‏‏‏‏ وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ .

It was narrated from'Amr bin Shu'aib, from his father that his grandfather, Said: that the Messenger of Allah said: It is not permissible to lend on the condition of a sale, or to have two conditions in one transaction, or to sell what you do not have. (Sahih

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ“ ۳؎۔
Haidth Number: 4615
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4611

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۷ (۳۵۰۴)، سنن الترمذی/البیوع ۱۹ (۱۲۳۴)، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۰ (۲۱۸۸)، (تحفة الأشراف: ۸۶۶۴)، مسند احمد (۲/۱۷۸)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۶۳۴، ۴۶۳۵

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپے کے بدلے اس شرط پر بیچے کہ بیچنے والا خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا (دیکھئیے باب رقم ۷۰) گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎ : مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تجھ سے ایک ہزار نقد اور دو ہزار ادھار میں بیچا (دیکھئیے باب رقم ۷۲) یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطں ہیں یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎ : بیچنے والے کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس میں دھوکہ دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوئے غلام یا اونٹ بیچے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بیچنے والا نہیں دے سکتا البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے خریدار کے لیے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے پاس بروقت موجود نہیں ہوتی۔ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔