Blog
Books
Search Hadith

باب: تلوار کے بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینے کا بیان۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسٍ:‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى قَوْمٍ مِنْ خَثْعَمَ فَاسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ،‏‏‏‏ فَقُتِلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا .

It was narrated from Anas that: the Messenger of Allah sent a detachment jof troops to some people of Khath'am, who sought to protect themselves by prostrating (to demonstrate that they were Muslims), but they were killed. The Messenger of Allah ruled that half the Diyah should be paid, and said: I am innocent of any Muslim who (lives with) a Mushrik.' Then the Messenger of Allah said: Their fires should not be visible to one another. '

قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کی طرف ( فوج کی ) ایک ٹکڑی بھیجی، تو انہوں نے سجدہ کر کے اپنے کو بچانا چاہا، پھر بھی وہ سب قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آدھی دیت ادا کی ۱؎ اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہے“ ۲؎، پھر آپ نے فرمایا: سنو! ( مسلمان اور کافر اس حد تک دور رہیں کہ ) ان دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے ۳؎۔
Haidth Number: 4784
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

(یہ حدیث ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، لیکن قیس کے شاگردوں کی ایک جماعت نے قیس کے بعد جریر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ مرسلا ہی روایت کی ہے، امام بخاری نے بھی مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے، مگر موصول کی

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ۱۰۵ (۲۶۴۵)، سنن الترمذی/السیر ۴۳ (۱۶۰۴، ۱۶۰۵)، (تحفة الأشراف: ۳۲۲۷، ۱۹۲۳۳)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : آدھی دیت کا حکم دیا اور باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں آدھی دیت ساقط ہو گئی۔ ۲؎ : اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علاحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمان کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل و صورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ۳؎ : اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں، ممکن ہے اس سے پہلے والے باب کی حدیث ہو اور نساخ کے تصرف سے اس باب کے تحت آ گئی ہو، اور اس حدیث کا مصداق ساری دنیا کے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ ہر ملک میں کافروں سے الگ سکونت اختیار کریں، اس زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اس کا مصداق ایسے علاقے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو، اور سارے حالات و اختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وغیرہ کے عہدوں میں تھا، اور آج سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہے، بعض مسلم ممالک کے اندر بھی موجودہ حالات میں الگ تھلگ رہائش مشکل ہے، «لايكلف الله نفسا إلا وسعها» (سورة البقرة : ۲۸۶)۔