Blog
Books
Search Hadith

باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟

أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:‏‏‏‏ أَنَّ امْرَأَةً مَخْزُومِيَّةً كَانَتْ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَجْحَدُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا .

It was narrated from Ibn 'Umar, may Allah be pleased with them both, that a Makhzumi woman used to borrow things then deny that she had borrowed them, so the Prophet (ﷺ) ordered that her hand be cut off.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۱؎۔
Haidth Number: 4891
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4887

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۱۵ (۴۳۹۵)، (تحفة الأشراف: ۷۵۴۹) مسند احمد (۲/۱۵۱)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : عاریت (روزمرہ برتے جانے والے سامانوں کی منگنی) کے انکار کر دینے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخزومیہ عورت کا ہاتھ کاٹ دیا، اس سے بعض علماء عاریت کے انکار کو بھی چوری مانتے ہیں۔ (اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو چوری سے تعبیر فرمایا) اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عاریت کے انکار پر آپ نے اس لیے ہاتھ کاٹا کہ ایسا نہ ہو کہ عاریت دینے کا چلن ہی سماج اور معاشرے سے ختم ہو جائے تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ بہرحال عاریت کے انکار پر ہاتھ کاٹنا ثابت ہے۔