Blog
Books
Search Hadith

عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ عَنْبَسَةَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قالت عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ أَوْهَمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَتَحَرَّوْا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ .

It was narrated from Ibn Tawus that his father said: 'Aishah, may Allah be please with her, said: 'Umar, may Allah be please with him, is not correct, rather the Messenger of Allah (ﷺ) only prohibited, as he said: 'Do no deliberately seek to pray when the sun is rising or when it is setting, for it rises between the horns of a Shaitan.

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ
عمر رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف یہ فرمایا ہے:  سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت تم اپنی نماز کا ارادہ نہ کرو، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے ۔
Haidth Number: 571
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 571

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۵۳ (۸۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۵۸)، مسند احمد ۶/ ۱۲۴، ۲۵۵ (کلاھما بدون قولہ ’’فإنھا…‘‘ (صحیح)

Wazahat

وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ فجر اور عصر کے بعد مطلقاً نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، یہ صحیح نہیں بلکہ ممانعت اس بات کی ہے کہ آدمی نماز کے لیے ان دونوں وقتوں کو خاص کر لے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ ان دونوں وقتوں میں نماز پڑھنا اولیٰ و انسب ہے، یا یہ ممانعت سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کے وقت کے ساتھ خاص ہے نہ کہ عصر اور فجر کے بعد مطلقاً، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلقاً ہے کیونکہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں علی الاطلاق ممانعت وارد ہے، اور بعض روایات میں جو تقیید ہے وہ اطلاق کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی ہیں، نووی نے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ تحری والی روایت اس بات پر محمول ہو گی کہ فرض نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو جائے، اور مطلقاً ممانعت والی روایت ان صلاتوں پر محمول ہو گی جو سببی نہیں ہیں۔