Blog
Books
Search Hadith

آیت کریمہ: ’’ اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو ‘‘ (الاعراف:۲۰۴) کی تفسیر۔

أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ .

It was narrated that Abu Hurairah said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'The Imam is appointed to be followed, so when he says the takbir, say the takbir, and when he recites, be silent, and when he says: Sami' Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him), say: Allahumma rabbana lakal-hamd (Our Lord, to You be praise).

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ۱؎، اور جب «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «اللہم ربنا لك الحمد» کہو ۔
Haidth Number: 922
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 922

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۶۹ (۶۰۴)، سنن ابن ماجہ/إقامة ۱۳ (۸۴۶) مطولاً، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۱۷)، مسند احمد ۲/۳۷۶، ۴۲۰، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۷۴ (۷۲۲)،۸۲ (۷۳۴)، صحیح مسلم/الصلاة ۱۹ (۴۱۴)، سنن الدارمی/فیہ ۷۱ (۱۳۵۰) (حسن صحیح)

Wazahat

وضاحت: ۱؎: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورۃ فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت «و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے ؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی ؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» والی حدیث سے استثناء بھی آ گیا ہے۔