عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں كہتے ہیں كہ ایك دن ہم مقداد بن اسود كے پاس بیٹھے تھے۔ ایك آدمی گزرا تو اس نے كہا: ان دو آنكھوں كےلئے خوشخبری ہو جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو دیكھا، اللہ كی قسم ہماری خواہش ہے كہ ہم نے بھی وہ دیکھا ہوتا جو آپ نے دیکھا اور ہم بھی وہاں موجود ہوتے جہاں آپ موجود تھے۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ غصے ہوگئے۔میں تعجب کرنے لگا کہ اس شخص نے تو اچھی بات کہی ہے ،پھر اس كی طرف متوجہ ہوئےاور كہا: اس آدمی كو كس بات نے مجبور كیا كہ یہ اس دور میں حاضر ہونے كی تمنا كرے جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے بعد میں پیدا كیا؟ اسے نہیں معلوم كہ اگر یہ اس وقت موجود ہوتا تو اس كے ساتھ كیا صورتحال ہوتی؟ اللہ كی قسم رسول! اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے زمانے میں ایسے لوگ موجود تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے منہ كے بل جہنم میں پھینك دیا۔ نہ انہوں نے اسلام قبول كیا اور نہ آپ كی تصدیق كی۔ كیا تم اللہ كی حمد بیان نہیں كرتے كہ تمہیں اس وقت پیدا كیا جب تم صرف اپنے رب كو پہچانتے ہو ، جو تمہارا نبی لایا اس كی تصدیق كرنے والے ہو، تمہارے علاوہ دوسرے لوگوں كو آزمائش میں مبتلا كیا گیا ۔ اللہ كی قسم اللہ تعالیٰ نے جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو مبعوث كیا تو وہ صورتحال اس سے بھی زیادہ سخت تھی جو كسی نبی كو درپیش ہوئی یا آپ دور جاہلیت میں اور اس وقفے میں مبعوث ہو جس میں انبیاء کا سسلہ موقوف تھا۔ وہ بتوں کی عبادت سے بڑھ کر کسی دین کو افضل خیال نہیں کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (قرآن) فرقان نازل كیا اور اس كے ذریعے حق وباطل كے درمیان فرق كیا۔ والد اور اس كے بچے كے درمیان فرق كیا، حتی كہ صورتحال ایسی ہو گئی كہ جس شخص كے دل كا تالا اللہ تعالیٰ نے ایمان كے لئے كھول دیا تھا وہ اگر اپنے باپ بیٹے یا بھائی كو دیكھتا كہ یہ كافر ہے تو اسے معلوم ہو جاتا كہ اگر یہ ہلاك ہو گیا تو آگ میں داخل ہوگا۔ جب اسے معلوم ہو جاتا كہ اس كا پیارا جہنم میں جائے گا تو اس كی آنكھوں كا قرار ختم ہو جاتا۔ یہ وہی حالت ہے جس كے متعلق اللہ عزوجل نے فرمایا:وہ لوگ جو دعا كرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنكھوں كی ٹھنڈك عطا فرما۔( )