ابو ماجدہ رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں كہ میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ كے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ كہنے لگے: مجھے وہ پہلا شخص یاد ہے جس كا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے كاٹا۔ ایك چور لایا گیا، اور اس كا ہاتھ كاٹنے كا حكم دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے چہرے پر تاسف صاف نظر آرہا تھا۔ لوگوں نے كہا:اے اللہ كے رسول! شاید آپ كو اس كا ہاتھ كاٹا جانا پسند نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے كون سی بات روكے گی؟ اپنے بھائی كے خلاف شیطان كے مددگار نہ بنو۔ حاكم كے لئے جائزنہیں كہ جب اس كے پاس حد كا معاملہ آئے تو حد نہ لگائے ۔اسے حد لگانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ درگزر كرنے والا ہے، درگزر كو پسند كرتا ہے: ﴿النور:۲۲﴾ ”یہ درگزراور معاف كریں، كیا تمہیں یہ بات پسند نہیں كہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے، اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے“