عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس رات مجھے معراج کروائی گئی، اور صبح مکے میں کی تو میں اپنے معاملے سے پریشان ہو گیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے، آپ غمگین ہو کر علیحدہ بیٹھ گئے۔ اللہ کا دشمن ابو جہل گزرا اور آکر آپ کے پاس بیٹھ گیا، اور استہزاء کرتے ہوئے آپ سے کہنے لگا: کیا کوئی نئی بات ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل نے کہا: وہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے سیر کروائی گئی۔ ابو جہل نے کہا :کس طرف؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس کی طرف ابو جہل کہنے لگا: پھر آپ نے صبح یہاں ہمارے درمیان کی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل نے آپ کی تکذیب اس ڈر سے مناسب نہ سمجھی کہ جب وہ اپنی قوم کو بلائے گا تو کہیں آپ اس بات کا انکار نہ کر دیں۔ کہنے لگا :آپ کے خیال میں اگر میں آپ کی قوم کو بلاؤں تو کیا آپ انہیں بھی وہی بات بتائیں گے جو مجھے بتائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل پکارنے لگا: بنی کعب بن لوئی کے لوگو! آؤ، لوگ آپ کی طرف آنے لگے اور آکر ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ابو جہل کہنے لگا: اپنی قوم کو بھی وہی بیان کیجئے جو مجھے بتایا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آج رات مجھے سیر کروائی گئی ہے ۔ لوگوں نے کہا:کس طرف؟آپ نے فرمایا: بیت المقدس کی طرف۔ لوگ کہنے لگے: پھر آپ ہمارے درمیان کھڑے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کچھ لوگ تالیاں بجانے لگے،اور کچھ لوگوں نے آپ کے گمان کے مطابق جھوٹ پر تعجب کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سروں پر رکھ لئے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ ہمیں اس مسجد کی صفات بیان کر یں گے؟ کچھ لوگ ایسے بھی تھےجنہوں نے اس علاقے کا سفر کیا تھا اور مسجد دیکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انہیں بتانے لگا۔ میں انہیں بتارہا تھا کہ کوئی وصف مجھ پر خلط ملط ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مسجد کو (میرے سامنے)لایا گیا، میں دیکھ رہا تھا حتی کہ عقال یا عقیل کے دروازے کے پاس رکھ دی گئی میں اس کا وصف بیان کرنے لگا اور میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عبداللہ بن عباس نے کہا کہ: اس حدیث میں رسول اللہ کا بیان کردہ بیت المقدس کا وصف بھی تھا لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ لوگوں نے کہا: یہ وصف واللہ درست بتایا۔