سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بیٹھے سب سے بڑے کبیرہ گناہ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ان کے پاس اس بارے میں کوئی حتمی علم نہیں تھا۔ (جس پر وہ سب متفق ہوسکیں) انہوں نے مجھے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں سوال کروں، انہوں نے مجھے بتایا کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ شراب پینا ہے۔ میں ان کے پاس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اس بات کا انکار کر دیا اور سب کے سب ان کی طرف چل پڑے۔ (اور ان کے گھر آگئے) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ نے ایک آدمی کو پکڑااور اسے اختیار دیا کہ وہ شراب پئے یا بچے کو قتل کر دے۔ یا زنا کرے یا خنزیر کا گوشت کھائے۔ اگر اس نے انکار کیا تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔اس نے شراب کو اختیار کیا، جب اس نے شراب پی لی ،تو جن کاموں کا اس سے مطالبہ ہوا تھا کسی سے بھی باز نہیں رہا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جو شخص شراب پیتا ہے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور جو شخص مرجائے اور اس کے مثانے میں کچھ(تھوڑی سی ہی ) شراب ہو تو اس پر جنت حرام ہے ،اور اگر وہ چالیس دن کے اندر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا