عمرو بن ابی قرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے، انہوں نے کچھ باتوں کا تذکرہ کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں اپنے صحابہ سے کہی تھیں۔حذیفہ رضی اللہ عنہ سے جن لوگوں نے یہ باتیں سنیں وہ سلمانرضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا ذکر کیا سلمانرضی اللہ عنہ نے کہا: حذیفہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ وہ حذیفہرضی اللہ عنہ کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ کی بات سلمانرضی اللہ عنہ کے سامنے رکھی تو نہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی نہ تکذیب کی۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سلمان رضی اللہ عنہ سبزیوں کے کھیت میں تھے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سلمان! جو بات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، اس بارے میں میری تصدیق کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں ہوا کرتے تھے تو غصے میں اپنے صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تو خوشی میں صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ لوگوں کے دلوں میں بعض کی محبت اور بعض کی نفرت اور ان میں اختلاف و افتراق ڈال دو گے۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو فرمایا: میری امت میں سے میں نے جس شخص کو گالی دی ہے یا غصے میں لعنت کی ہے، تو میں بھی آدم کی اولاد ہوں جس طرح دوسرے لوگ غصے ہوتے ہیں میں بھی غصے ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ اے اللہ! قیامت کے دن اس کو ان کے لئے رحمت کا باعث بنا۔ واللہ! یا تو تم باز آجاؤ وگرنہ میں عمررضی اللہ عنہ کو (شکایت)لکھتا ہوں۔