محمد بن سعد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ سے بہت زیادہ سوالات کر رہی تھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفتگو کر رہی تھیں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اوٹ میں ہوگئیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو مسکراتا رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس بیٹھی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے اوٹ میں ہو گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کا زیادہ حق ہے کہ یہ آپ سے ڈریں ،پھر ان عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈر رہی ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ کہنے لگیں: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں زیادہ سخت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن الخطاب ! بس کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان تم سے جس گلی میں بھی ملتا ہے تو وہ دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔