Blog
Books
Search Hadith

باب: مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Salat For The Deceased In The Masjid

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ قَالَ مَالِكٌ:‏‏‏‏ لَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.

Aishah narrated: The Messenger of Allah performed Salat over Suhail bin Al-Baida in the Masjid.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۳- شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں: میت پر نماز جنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی، ۴- شافعی کہتے ہیں: میت پر نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔
Haidth Number: 1033
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (1518) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1033

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۴ (۹۷۳)، سنن النسائی/الجنائز ۷۰ (۱۹۶۹)، مسند احمد (۶/۷۹، ۱۳۳، ۱۶۹) (تحفة الأشراف : ۱۶۱۷۵)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام : سہل، سہیل اور صفوان تھے اور ان کی ماں کا نام رعد تھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اور ان کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔ ۲؎ : اس سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا، یہی جمہور کا مذہب ہے جو لوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت «من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له» ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے، جمہور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہور اور محقق نسخے میں «فلا شيء له» کی جگہ «فلا شيء عليه» ہے اس کے علاوہ اس کے اور بھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئیے (تحفۃ الاحوذی ج۲ ص۱۴۶)۔