Blog
Books
Search Hadith

باب: قبریں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے کی ممانعت

Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Plaster Graves And Write On Them

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُوطَأَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي تَطْيِينِ الْقُبُورِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ أَنْ يُطَيَّنَ الْقَبْرُ.

Jabir narrated: The Messenger of Allah prohibited plastering graves, writing on them, building over them, and treading on them.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱؎، ان پر لکھا جائے ۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اور انہیں روندا جائے ۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ اور بھی طرق سے جابر سے مروی ہے، ۳- بعض اہل علم نے قبروں پر مٹی ڈالنے کی اجازت دی ہے، انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں، ۴- شافعی کہتے ہیں: قبروں پر مٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
Haidth Number: 1052
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح الأحكام (204) ، تحذير الساجد (40) ، الإرواء (757) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1052

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۲ (۹۷۰) سنن ابی داود/ الجنائز ۷۶ (۳۲۲۵) سنن النسائی/الجنائز ۹۶ (۲۰۲۹) (تحفة الأشراف : ۲۷۹۶) مسند احمد (۳/۲۹۵)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس ممانعت کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچا دیتی ہے۔ ۲؎ : یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اور تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اور اسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔ ۳؎ : مثلاً قبّہ وغیرہ۔ ۴؎ : یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔