Blog
Books
Search Hadith

باب: مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Matters That Are Not Clear

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِنَ الْحَلَالِ هِيَ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَرَكَهَا اسْتِبْرَاءً لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ سَلِمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْهَا يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا أَنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، ‏‏‏‏‏‏يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ . حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ.

An-Numan bin Bashir narrated that the Messenger of Allah (S) said: The lawful is clear and the unlawful is clear, and between that are matters that are doubtful (not clear); many of the people do not know whether it is lawful or unlawful. So whoever leaves it to protect his religion and his honor, then he will be safe, and whoever falls into something from them, then he soon will have fallen into the unlawful. Just like if someone grazes (his animals) around a sanctuary, he would soon wind up in it. Indeed for every king is a sanctuary (pasture), and indeed Allah's sanctuary is what He made unlawful.

نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب ( اپنا جانور ) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں“۔ دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اور انہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے کئی رواۃ نے شعبی سے اور شعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔
Haidth Number: 1205
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (3984) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1205

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۳۹ (۵۲)، والبیوع ۲ (۲۰۵۱)، صحیح مسلم/المساقاة ۲۰ (البیوع ۴۰)، (۱۵۹۹)، سنن ابی داود/ البیوع ۳ (۳۳۲۹)، سنن النسائی/البیوع ۲ (۴۴۵۸)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۴ (۲۹۸۴)، (تحفة الأشراف : ۱۱۶۲۴)، مسند احمد (۴/۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۵)، سنن الدارمی/البیوع ۱ (۲۵۷۳)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مراد ایسے امور و معاملات ہیں جن کی حلت و حرمت سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریز کرے، اور جو شخص حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر ان میں ملوث ہو گیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، اس میں تجارت اور کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں۔