Blog
Books
Search Hadith

باب: قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کا مال لینے پر وارد وعید کا بیان

Chapter: What Has Been Related About The Severe Threat For One Who Is Awarded A Judgement For Something That Is Not His To Take

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ قَضَيْتُ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

Umm Salamah narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Indeed you come to me with your disputes, and I am only a human being, perhaps one of you is more eloquent at presenting his argument than the other. If I judge for one of you, giving him something from the rights of his brother, then it is only a piece of the Fire that I am giving him, so do not take anything from it.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہو میں ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوا دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، لہٰذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے“ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ سے بھی روایت ہے۔
Haidth Number: 1339
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (2317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1339

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ۱۶ (۲۴۹۸)، والشہادات ۲۷ (۲۶۸۰)، والحیل ۱۰ (۶۹۶۷)، والأحکام ۲۰ (۷۱۶۹)، و ۲۹ (۷۱۸۱)، و۳ (۷۱۸۵)، صحیح مسلم/الأقضیة ۳ (۱۷۱۳)، سنن ابی داود/ الأقضیة ۷ (۳۵۸۳)، سنن النسائی/القضاة ۱۳ (۵۴۰۳)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۵ (۲۳۱۷)، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۶۱)، وط/الأقضیة ۱ (۱)، و مسند احمد (۶/۳۰۷، ۳۲۰)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کر سکتا ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا، اور نفس الامر میں نہ حرام کو حلال کر سکتا ہے اور نہ حلال کو حرام، جمہور کی یہی رائے ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دے دیتا ہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجود یہ کہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مرد کے لیے حلال ہو جائے گی۔