Blog
Books
Search Hadith

باب: گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Lost Items, The Stray Camel And Sheep

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ،‏‏‏‏ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا،‏‏‏‏ وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا،‏‏‏‏ وَعِفَاصَهَا،‏‏‏‏ وَوِكَاءَهَا،‏‏‏‏ وَعَدَدَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ كُلْهَا،‏‏‏‏ فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ،‏‏‏‏ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً،‏‏‏‏ فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ:‏‏‏‏ يُعَرِّفُهَا سَنَةً،‏‏‏‏ فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَهْلِ الْكُوفَةِ،‏‏‏‏ لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا،‏‏‏‏ وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا،‏‏‏‏ لِأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ،‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا،‏‏‏‏ وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ،‏‏‏‏ مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا،‏‏‏‏ فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا،‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَهَا،‏‏‏‏ فَلَوْ كَانَتِ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلَّا لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ،‏‏‏‏ لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَّفَهُ،‏‏‏‏ فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ،‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَكْلِهِ،‏‏‏‏ وَكَانَ لَا يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَتِ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا،‏‏‏‏ وَلَا يُعَرِّفَهَا وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ إِسْحَاق بْنِ إِبْرَاهِيمَ.

Zaid bin Khalid Al-Juhni narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) was asked about the lost item. He said: Make a public announcement about it for one year, if it is claimed then give it to him. Otherwise remember its sack, string, and its count. Then use it, and if its owner comes, give it to him.

زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ ( گری پڑی چیز ) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”سال بھر اس کی پہچان کراؤ ۱؎، اگر کوئی پہچان بتا دے تو اسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اور سربند کو پہچان لو، پھر اسے کھا جاؤ۔ پھر جب اس کا مالک آئے تو اسے ادا کر دو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے، ۳- یہ ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں، جب ایک سال تک اس کا اعلان ہو جائے اور کوئی پہچاننے والا نہ ملے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہٰ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کر دے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔ اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے، ۶- لقطہٰ اٹھانے والا جب مالدار ہو تو یہ لوگ لقطہٰ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں، ۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مالدار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اور بہت مالدار تھے، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا۔ ( دوسری بات یہ کہ ) اگر لقطہٰ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے تو علی رضی الله عنہ کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی رضی الله عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دینار ملا، انہوں نے ( سال بھر تک ) اس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جو اسے پہچانتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالانکہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا، ۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہٰ معمولی ہو تو لقطہٰ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کا پہچان کروانا ضروری نہیں ۲؎، ۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینار سے کم ہو تو وہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے، ۱۰- اس باب میں ابی بن کعب، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
Haidth Number: 1373
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (2507) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1373

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۳۷۴۸)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کا ذکر ہے اور باب کی آخری حدیث میں تین سال کا ذکر ہے، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قرار دیا جائے، پہچان کرانے کی صورت یہ ہو گی کہ بازار اور اجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیا جائے کہ گمشدہ چیز کی نشانی بتا کر حاصل کی جا سکتی ہے، اگر کوئی اس کی نشانی بتا دے تو مزید شناخت اور گواہوں کی ضرورت نہیں بلا تأمل وہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے۔ ۲؎ : اس کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها» یعنی ” میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتا ہے، اس کو کھا لینا چاہتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو، تو اسے پھینک دیتا ہوں “، اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔