Blog
Books
Search Hadith

باب: صلہ رحمی کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Connecting The Ties Of Kinship

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا بَشِيرٌ أَبُو إِسْمَاعِيل، وَفِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ عَنْ سَلْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.

Abdullah bin Amr narrated that: the Prophet said: Merely maintaining the ties of kinship is not adequate. But connecting the ties of kinship is when his ties to the womb are severed and he connects it.

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ
ابوالرداد لیثی بیمار ہو گئے، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد ( عبدالرحمٰن بن عوف ) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم» ( یعنی رشتے ناتے ) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے ( مشتق کر کے ) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے ( اپنی رحمت سے ) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے ( اپنی رحمت سے ) کاٹ دوں گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن ابی اوفی، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ اور جبیر بن مطعم رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲- زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے، معمر نے زہری سے یہ حدیث «عن أبي سلمة عن رداد الليثي عن عبدالرحمٰن بن عوف و معمر» کی سند سے روایت کی ہے، معمر نے ( سند بیان کرتے ہوئے ) ایسا ہی کہا ہے، محمد ( بخاری ) کہتے ہیں: معمر کی حدیث میں خطا ہے، ( دونوں سندوں میں فرق واضح ہے ) ۔
Haidth Number: 1908
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح غاية المرام (404) ، صحيح أبي داود (1489) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1908

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۵ (۵۹۹۱)، سنن ابی داود/ الزکاة ۴۵ (۱۶۹۷) (تحفة الأشراف : ۸۹۱۵)، و مسند احمد (۲/۱۶۳، ۱۹۰، ۱۹۳)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : سند میں ابوالرداد ہے، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے ”رداد“ آیا ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ”رداد“ کو بعض لوگوں نے ”ابوالرداد“ کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے، (تقریب التہذیب)۔