Blog
Books
Search Hadith

باب: ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Ibn Sayyad

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا يَأْتِيكَ ؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ:‏‏‏‏ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ:‏‏‏‏ هُوَ الدُّخُّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَا يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ:‏‏‏‏ يَعْنِي الدَّجَّالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

It was narrated from Ibn 'Umar, that the Messenger of Allah(s.a.w) passed by Ibn Sayyad with a group of his Companions – among them `Umar bin Al-Khattab – while he was playing with two boys at the fort of Banu Maghalah, and he was a boy. He did not realize until the Messenger of Allah(s.a.w) struck him with his hand on his back, then he said: “Do you testify that I am the Messenger of Allah?” So Ibn Sayyad looked at him, and said: 'I testify that you are the Messenger to the illiterates.'” He said: “Then Ibn Sayyad said to the Prophet(s.a.w): 'Do you testify that I am the Messenger of Allah?' So the Prophet(s.a.w) said: 'I believe in Allah and His Messengers.' Then the Prophet(s.a.w) said: 'Who has come to you?' Ibn Sayyad said: 'A truthful one and a liar came to me.' So the Prophet(s.a.w) said: 'The matter has been confused for you.' Then the Messenger of Allah(s.a.w) said: 'I have concealed something from you.' And he had concealed (the verse): The day when the sky will bring forth a visible smoke. Ibn Sayyad said: 'It is, “Ad-Dukh.'” So the Messenger of Allah(s.a.w) said: 'Beat it! You can never surpass your ability.' `Umar said: 'O Messenger of Allah! Permit me to chop off his head!' The Messenger of Allah(s.a.w) said: 'If he is indeed him, then you will never overpower him, and if he is not, then there is no good in you killing him.'” (Sahih)

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں“، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تمہارے پاس ( غیب کی ) کون سی چیز آتی ہے؟“ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اوپر تیرا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے ( دل میں ) ایک بات چھپاتا ہوں“ اور آپ نے آیت: «يوم تأتي السماء بدخان مبين» ۱؎ چھپا لی، ابن صیاد نے کہا: وہ ( چھپی ہوئی چیز ) «دخ» ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھٹکار ہو تجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا“، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آ سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے“۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: «حقا» سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Haidth Number: 2249
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2249

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۷۹ (۱۳۵۴)، والجھاد ۱۷۸ (۳۰۵۵)، والأدب ۹۷ (۶۶۱۸)، صحیح مسلم/الفتن ۱۹ (۲۹۳۰)، سنن ابی داود/ الملاحم ۱۶ (۴۳۲۹) (تحفة الأشراف : ۶۹۳۲)، و مسند احمد (۲/۱۴۸)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ ۲؎ : بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہو چکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔