Blog
Books
Search Hadith

باب: فتنوں میں پڑنے والی چیزوں کا بیان

Chapter: 'Whoever Comes To The Door Of The Sultan He Will Suffer A Fitnah'

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتِنَ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبَي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ.

It was narrated from Ibn 'Abbas, that the Prophet(s.a.w) said: Whoever resides in the deserts, he becomes ignorant, whoever follows game, he becomes heedless, and whoever comes to the door of the Sultan, he will suffer a Fitnah.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بادیہ ( صحراء و بیابان ) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والا ہو گیا، جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہو گیا اور جو بادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکار ہو گیا“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
Haidth Number: 2256
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، المشكاة (3701 / التحقيق الثانى) ، صحيح أبي داود (2547) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2256

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصید ۴ (۲۸۵۹)، سنن النسائی/الصید ۲۴ (۴۳۱۴) (تحفة الأشراف : ۶۵۳۹)، و مسند احمد (۱/۳۵۷)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ صحراء و بیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ہے اور علماء کی مجالس سے دور رہتا ہے تو ایسا شخص تمدن و تہذیب سے دور، سخت طبیعت والا ہو گا، اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہو جائے گا، البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے، بادشاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتا ہے تو فتنہ میں پڑ جائے گا، البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔