Blog
Books
Search Hadith

باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب

Chapter: Regarding The Virtue Of Sufficing With What Is Sufficient And Giving The Surplus

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ هُوَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ آدَمَ،‏‏‏‏ إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلِ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُلَامُ عَلَى كَفَافٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَشَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُكْنَى:‏‏‏‏ أَبَا عَمَّارٍ.

Abu Umamah narrated that the Prophet (s.a.w) said: O son of Adam! If you give your surplus it is better for you, and if you keep it, it is worse for you, but there is no harm with what is sufficient. And begin(the giving) with your dependents, and the upper hand (giving) is better than the lower hand (receiving).

ابوامامہ کہتے ہیں کہ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہو گا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہو گا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ و خیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپر والا ( دینے والا ) ہاتھ نیچے والے ہاتھ ( مانگنے والے ) سے بہتر ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Haidth Number: 2343
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، الإرواء (3 / 318) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2343

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۳۲ (۱۰۳۶) (تحفة الأشراف : ۴۸۷۹)، و مسند احمد (۵/۲۶۲)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت کا خیال رکھو اور ضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اور مستحقین کے درمیان تقسیم کر دو کیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ صحیح نہیں، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، اور آخرت میں بخل کا جو انجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔