Blog
Books
Search Hadith

باب: اسلام اجنبی بن کر آیا پھر اجنبی بن جائے گا

Chapter: What Has Been Related About Islam Began As Something Strange And It Will Return To Being Something Strange

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ، ‏‏‏‏‏‏فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ ،‏‏‏‏ وفي الباب عن سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْأَحْوَصِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ تَفَرَّدَ بِهِ حَفْصٌ.

Narrated 'Abdullah bin Mas'ud: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Indeed Islam began as something strange and it will return to being strange as it began. So Tuba is for the strangers.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں سعد، ابن عمر، جابر، اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- میں اس حدیث کو صرف حفص بن غیاث کی روایت سے جسے وہ اعمش کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، جانتا ہوں، ۴- ابوالاحوص کا نام عوف بن مالک بن نضلہ جشمی ہے، ۵- ابوحفص اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔
Haidth Number: 2629
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (3988) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2629

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۵ (۳۹۸۸) (تحفة الأشراف : ۹۵۱۰)، و مسند احمد (۱/۳۹۸)، وسنن الدارمی/الرقاق ۴۲ (۲۷۹۷)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اسلام جب آیا تو اس کے ماننے والوں کی زندگی جس اجنبیت کے عالم میں گزر رہی تھی یہاں تک کہ لوگ ان سے نفرت کرتے تھے، اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو اپنے لیے حقارت سمجھتے تھے انہیں تکلیفیں پہنچاتے تھے، ٹھیک اسی اجنبیت کے عالم میں اسلام کے آخری دور میں اس کے پیروکار ہوں گے، لیکن خوشخبری اور مبارک بادی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس اجنبی حالت میں اسلام کو گلے سے لگایا اور جو اس کے آخری دور میں اسے گلے سے لگائیں گے، اور دشمنوں کی تکالیف برداشت کر کے جان و مال سے اس کی خدمت و اشاعت کرتے رہیں گے۔