Blog
Books
Search Hadith

باب: امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Not Reciting Behind The Imam When The Imam Is Reciting Aloud

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

Abu Nu'aim Wahb bin Kaisan narated that he heard Jabir bin 'Abdullah saying: Whoever prayed a Rak'ah in which he did not recite Umm Al-Qur'an, then he did not pray except if he was behind an Imam. [Abu 'Eisa said:] This Hadith is Hasan Sahih.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ
جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Haidth Number: 313
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح موقوف، الإرواء (2 / 273) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 313

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر موطا امام مالک/الصلاة ۸ (۳۸)، (لم یذکرہ المزی فی مظانہ ج۲/ص۲۸۵-۲۸۸ من رقم ۳۱۲۵ إلی ۳۱۳۲)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس اثر کا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں، امام بیہقی نے ” کتاب القراءۃ “ (ص : ۱۱۲) میں جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا یہ اثر نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : اس اثر میں نماز میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دو رکعات میں اس سورۃ کی قرأت کے وجوب کے قائل ہیں، نماز کی تمام رکعتوں کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہونے کی بھی دلیل ہے، اور جہاں تک جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی : «إلا وَرَائَ الإمَامِ» والی بات کا تعلق ہے تو : (۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی الله عنہ کا امام کے پیچھے اس نماز میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کر دینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتا ہے۔ (۲) یہ بھی احتمال ہے کہ : اس سے مراد وہ رکعت ہو کہ کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اور اس کے ساتھ مل جائے تو اس کی یہ رکعت ہو جائے گی، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے۔ (۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثر درج کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما چار رکعات والی نماز پہلی دو رکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دو رکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اور پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی، (تو جابر رضی الله عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہو گئی) اور یہ کہ یہ لفظ عام ہے : اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی۔ (۴) عبیداللہ بن مقسم کی روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما فرماتے تھے : نماز میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ نمازی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے … اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے : «كنا نتَحدث» تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمار کرتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)