Blog
Books
Search Hadith

باب: سورۃ الحشر سے بعض آیات کی تفسیر

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَطَّعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

Ibn Umar [may Allah be pleased with him] said: “The Messenger of Allah ordered burning and cutting down the date palms of Banu An-Nadir, and that (place was called Al-Buwairah. So Allah revealed: What you cut down of the Linah, or you left of them standing on their trunks, it was by the leave of Allah, and in order that He might disgrace the rebellious.”

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» ”جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم ( و سالم ) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے“ ( الحشر: ۵ ) ، نازل فرمائی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Haidth Number: 3302
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (2844) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3302

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المزارعة ۴ (۲۳۵۶)، والجھاد ۱۵۴ (۳۰۲۰)، والمغازي ۱۴ (۳۹۶۰)، صحیح مسلم/الجھاد ۱۰ (۱۷۴۶)، سنن ابی داود/ الجھاد ۹۱ (۲۶۱۵)، سنن ابن ماجہ/الجھاد (۲۸۴۴)، وسنن الدارمی/السیر ۲۳ (۲۵۰۳)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : یہ غزوہ بنو نضیر کا واقعہ ہے، جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے بعض کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا، اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا کہ دیکھو محمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں، بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہو سکتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا (ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا)۔