Blog
Books
Search Hadith

باب: وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان

Chapter: What Has Been Related About Al-Witr Is Not Incumbent

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.

Ali said: Al-Witr is not incumbent like your obligatory prayers, but it is a Sunnah of Allah's Messenger who said: Indeed Allah is Witr (One), and He loves Al-Witr, so perform Al-Witr O people of the Qur'an.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں
وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر ( طاق ) ۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
Haidth Number: 453
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (1169) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 453

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۳۶ (۱۴۱۶)، (الشطر الأخیر فحسب)، سنن النسائی/قیام اللیل ۲۷ (۱۶۷۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۴ (۱۱۶۹)، (تحفة الأشراف : ۱۰۱۳۵)، مسند احمد (۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۵، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۴۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۸ (۱۶۲۱)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ ۲؎ : اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔ ۳؎ : صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔