Blog
Books
Search Hadith

باب: عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان

Chapter: About The Women Going Out For The Two Eid

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ هُوَ ابْنُ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُخْرِجُ الْأَبْكَارَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضَ فِي الْعِيدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى وَيَشْهَدْنَ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَاب ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَلْتُعِرْهَا أُخْتُهَا مِنْ جَلَابِيبِهَا .

Umm Atiyyah narrated: Allah's Messenger would order the virgins, the mature women, the secluded and the menstruating to go out for the two Eid. As for the menstruating women, they were to stay away from the Musalla and participate in the Muslims supplications. One of them said: 'O Messenger of Allah! What if she does not have a Jilbab? He said: 'Then let her sis lend her a Jilbab.'

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے“ ۱؎۔
Haidth Number: 539
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (1307 و 1308) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 539

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۳ (۳۲۴)، والصلاة ۲ (۳۵۱)، والعیدین ۱۵ (۹۸۰)، و۲۱ (۹۸۱)، والحج ۸۱ (۱۶۵۲)، صحیح مسلم/العیدین ۱ (۸۹۰)، والجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۴۷ (۱۱۳۶)، سنن النسائی/الحیض ۲۲ (۳۹۰)، والعیدین ۳ (۱۵۵۹)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۶۵ (۱۳۰۷)، (تحفة الأشراف : ۱۸۱۰۸)، مسند احمد (۵/۸۴، ۸۵)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۲۳ (۱۶۵۰)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے، جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں : یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں، ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔