Blog
Books
Search Hadith

باب: صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان

Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Take Back Charity

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ:‏‏‏‏ أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ.

Ibn Umar narrated that : Umar gave a horse to be used in the cause of Allah. Then he saw it being sold, so he wanted to buy it, but the Prophet said: Do not take back what you have given in charity.

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ
انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا صدقہ واپس نہ لو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
Haidth Number: 668
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

صحيح، ابن ماجة (2390) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 668

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزکاة ۱۰۰ (۲۶۱۷)، (تحفة الأشراف : ۱۰۵۲۶)، وأخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۹ (۱۴۹۰)، والہبة ۳۰ (۲۶۲۳)، و۳۷ (۲۶۳۶)، والوصایا ۳۱ (۲۷۷۵)، والجہاد ۱۱۹ (۲۹۷۰)، و۱۳۷ (۳۰۰۳)، صحیح مسلم/الہبات ۱ (۱۶۲۰)، سنن النسائی/الزکاة ۱۰۰ (۲۶۱۶)، سنن ابن ماجہ/الصدقات ۱ (۲۳۹۰)، موطا امام مالک/الزکاة ۲۶ (۴۹)، مسند احمد (۱/۴۰، ۵۴)، من غیر ہذا الطریق کما أخرجہ صحیح البخاری/الزکاة ۵۹ (۱۴۸۹)، وسنن النسائی/الزکاة ۱۰۰ (۲۶۱۸)، من مسند عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے، لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے، نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث «لا تحل الصدقة إلا لخمسة لعامل عليها اورجل اشتراها بما … الحديث» کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی الله عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائے گی اور ابوسعید رضی الله عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی الله عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔