Blog
Books
Search Hadith

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

(1) CHAPTER. Al-Jizya (i.e., tax taken from all non-Muslims living under the protection of Islamic state) taken from the Dhimmi, and the stoppage of war for a while with the enemies.

5 Hadiths Found
میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان دونوں بزرگوں سے بجالہ نے بیان کیا کہ 70 ھ میں جس سال مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس انہوں نے بیان کیا تھا کہ میں احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ تو وفات سے ایک سال پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس پارسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہو تو ان کو جدا کر دو اور عمر رضی اللہ عنہ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا۔

Narrated `Amr bin Dinar: I was sitting with Jabir bin Zaid and `Amr bin Aus, and Bjalla was narrating to them in 70 A.H. the year when Mus`ab bin Az-Zubair was the leader of the pilgrims of Basra. We were sitting at the steps of Zamzam well and Bajala said, I was the clerk of Juz bin Muawiya, Al-Ahnaf's paternal uncle. A letter came from `Umar bin Al-Khattab one year before his death; and it was read:-- Cancel every marriage contracted among the Magians between relatives of close kinship (marriages that are regarded illegal in Islam: a relative of this sort being called Dhu-Mahram.) `Umar did not take the Jizya from the Magian infidels till.

Haidth Number: 3156
لیکن جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے پارسیوں سے جزیہ لیا تھا ( تو وہ بھی لینے لگے تھے ) ۔

Abdur-Rahman bin `Auf testified that Allah's Apostle had taken the Jizya from the Magians of Hajar.

Haidth Number: 3157

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ الْأَنْصَارِيَّ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَتْ صَلَاةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا صَلَّى بِهِمُ الْفَجْرَ انْصَرَفَ فَتَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ ، وَقَالَ : أَظُنُّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَيْءٍ ، قَالُوا : أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ فَوَاللَّهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنْ أَخَشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے لوگوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو حاکم بنایا تھا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین کا مال لے کر آئے تو انصار کو معلوم ہو گیا کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں۔ چنانچہ فجر کی نماز سب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں خوشخبری ہو، اور اس چیز کے لیے تم پرامید رہو۔ جس سے تمہیں خوشی ہو گی، لیکن اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کا کچھ دنیا کے دروازے تم پر اس طرح کھول دئیے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دئیے گئے تھے، تو ایسا نہ ہو کہ تم بھی ان کی طرح ایک دوسرے سے جلنے لگو اور یہ جلنا تم کو بھی اسی طرح تباہ کر دے جیسا کہ پہلے لوگوں کو کیا تھا۔

Narrated `Amr bin `Auf Al-Ansari: (who was an ally of Bam `Amr bin Lu'ai and one of those who had taken part in (the Ghazwa of) Badr): Allah's Apostle sent Abu 'Ubaida bin Al-Jarreh to Bahrain to collect the Jizya. Allah's Apostle had established peace with the people of Bahrain and appointed Al-`Ala' bin Al-Hadrami as their governor. When Abu 'Ubaida came from Bahrain with the money, the Ansar heard of Abu 'Ubaida's arrival which coincided with the time of the morning prayer with the Prophet. When Allah's Apostle led them in the morning prayer and finished, the Ansar approached him, and he looked at them and smiled on seeing them and said, I feel that you have heard that Abu. 'Ubaida has brought something? They said, Yes, O Allah's Apostle' He said, Rejoice and hope for what will please you! By Allah, I am not afraid of your poverty but I am afraid that you will lead a life of luxury as past nations did, whereupon you will compete with each other for it, as they competed for it, and it will destroy you as it destroyed them.

Haidth Number: 3158

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الْأَمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِكِينَ ، فَأَسْلَمَ الْهُرْمُزَانُ ، فَقَالَ : إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ ، قَالَ : نَعَمْ مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلَانِ ، فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلَانِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ ، فَإِنْ كُسِرَ الْجَنَاحُ الْآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلَانِ وَالرَّأْسُ وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلَانِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ ، فَالرَّأْسُ كِسْرَى وَالْجَنَاحُ قَيْصَرُ وَالْجَنَاحُ الْآخَرُ فَارِسُ فَمُرِ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى ، وَقَالَ بَكْرٌ وَزِيَادٌ جميعا ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، قَالَ : فَنَدَبَنَا عُمَرُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا فَقَامَ تَرْجُمَانٌ ، فَقَالَ : لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ ، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ : سَلْ عَمَّا شئِتَ قَالَ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالَ : نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلَاءٍ شَدِيدٍ نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الْجُوعِ ، وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ ، وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرَضِينَ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ ، فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ : نُقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ ، وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ .

کفار سے جنگ کے لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فوجوں کو ( فارس کے ) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا۔ ( جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا ) تو ہرمزان ( شوستر کا حاکم ) اسلام لے آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان ( ممالک فارس وغیرہ ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں ( کہ پہلے ان تین مقاموں فارس، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے ) اس نے کہا جی ہاں! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے، دو بازو ہیں۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بےکار رہ جاتا ہے۔ پس سر تو کسریٰ ہے، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں عمر رضی اللہ عنہ نے ( جہاد کے لیے ) بلایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا۔ جب ہم دشمن کی سر زمین ( نہاوند ) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص ( معاملات پر ) گفتگو کرے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ( مسلمانوں کی نمائندگی کی اور ) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں، انہیں بیان کرو۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون؟ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے۔ ہماری طرف ہماری ہی طرح ( کے انسانی عادات و خصائص رکھنے والا ) ایک نبی بھیجا۔ ہم اس کے باپ اور ماں کو جانتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں۔ جب تک تم صرف اللہ اکیلے کی عبادت نہ کرنے لگو۔ یا پھر اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ دینا قبول کر لو اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے رب کا یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ ( اسلام کے لیے لڑتے ہوئے ) جہاد میں ہمارا جو آدمی بھی قتل کیا جائے گا وہ ایسی جنت میں جائے گا، جو اس نے کبھی نہیں دیکھی اور جو لوگ ہم میں سے زندہ باقی رہ جائیں گے وہ ( فتح حاصل کر کے ) تم پر حاکم بن سکیں گے ( مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کر کے نعمان رضی اللہ عنہ سے کہا لڑائی شروع کرو ) ۔

Narrated Jubair bin Haiya: `Umar sent the Muslims to the great countries to fight the pagans. When Al-Hurmuzan embraced Islam, `Umar said to him. I would like to consult you regarding these countries which I intend to invade. Al-Hurmuzan said, Yes, the example of these countries and their inhabitants who are the enemies. of the Muslims, is like a bird with a head, two wings and two legs; If one of its wings got broken, it would get up over its two legs, with one wing and the head; and if the other wing got broken, it would get up with two legs and a head, but if its head got destroyed, then the two legs, two wings and the head would become useless. The head stands for Khosrau, and one wing stands for Caesar and the other wing stands for Faris. So, order the Muslims to go towards Khosrau. So, `Umar sent us (to Khosrau) appointing An-Nu`man bin Muqrin as our commander. When we reached the land of the enemy, the representative of Khosrau came out with forty-thousand warriors, and an interpreter got up saying, Let one of you talk to me! Al-Mughira replied, Ask whatever you wish. The other asked, Who are you? Al-Mughira replied, We are some people from the Arabs; we led a hard, miserable, disastrous life: we used to suck the hides and the date stones from hunger; we used to wear clothes made up of fur of camels and hair of goats, and to worship trees and stones. While we were in this state, the Lord of the Heavens and the Earths, Elevated is His Remembrance and Majestic is His Highness, sent to us from among ourselves a Prophet whose father and mother are known to us. Our Prophet, the Messenger of our Lord, has ordered us to fight you till you worship Allah Alone or give Jizya (i.e. tribute); and our Prophet has informed us that our Lord says:-- Whoever amongst us is killed (i.e. martyred), shall go to Paradise to lead such a luxurious life as he has never seen, and whoever amongst us remain alive, shall become your master. (Al-Mughira, then blamed An-Nu`man for delaying the attack and) .

Haidth Number: 3159
تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے۔ اور اس نے ( لڑائی میں دیر کرنے پر ) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے، ہوائیں چلنے لگیں، نمازوں کا وقت آن پہنچے۔

An-Nu' man said to Al-Mughira, If you had participated in a similar battle, in the company of Allah's Apostle he would not have blamed you for waiting, nor would he have disgraced you. But I accompanied Allah's Apostle in many battles and it was his custom that if he did not fight early by daytime, he would wait till the wind had started blowing and the time for the prayer was due (i.e. after midday).

Haidth Number: 3160