Blog
Books
Search Hadith

استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

(28) CHAPTER. To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates.

3 Hadiths Found
ایک شخص ( حزم بن ابی کعب ) نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر ) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص ( معاذ بن جبل ) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں ( جماعت کی ) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا ( کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا ) ( ابومسعود راوی کہتے ہیں ) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم ( ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے ) نفرت دلانے لگے ہو۔ ( سن لو ) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے ( سب ہی قسم کے لوگ ) ہوتے ہیں۔

Narrated Abu Mas`ud Al-Ansari: Once a man said to Allah's Apostle O Allah's Apostle! I may not attend the (compulsory congregational) prayer because so and so (the Imam) prolongs the prayer when he leads us for it. The narrator added: I never saw the Prophet more furious in giving advice than he was on that day. The Prophet said, O people! Some of you make others dislike good deeds (the prayers). So whoever leads the people in prayer should shorten it because among them there are the sick the weak and the needy (having some jobs to do).

Haidth Number: 90

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ : اعْرِفْ وِكَاءَهَا ، أَوْ قَالَ : وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً ، ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ ، قَالَ : فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ ، أَوْ قَالَ : احْمَرَّ وَجْهُهُ ، فَقَالَ : وَمَا لَكَ وَلَهَا ، مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا ، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ ، فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا ، قَالَ : فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ : لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ .

ایک شخص ( عمیر یا بلال ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی ( پہچان لے ) پھر ایک سال تک اس کی شناخت ( کا اعلان ) کراؤ پھر ( اس کا مالک نہ ملے تو ) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ ( کے بارے میں ) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے ( پاؤں کے ) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے ( بارے میں ) کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی ( غذا ) ہے۔

Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: A man asked the Prophet about the picking up of a Luqata (fallen lost thing). The Prophet replied, Recognize and remember its tying material and its container, and make public announcement (about it) for one year, then utilize it but give it to its owner if he comes. Then the person asked about the lost camel. On that, the Prophet got angry and his cheeks or his Face became red and he said, You have no concern with it as it has its water container, and its feet and it will reach water, and eat (the leaves) of trees till its owner finds it. The man then asked about the lost sheep. The Prophet replied, It is either for you, for your brother (another person) or for the wolf.

Haidth Number: 91
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب ( اس قسم کے سوالات کی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا ( اچھا اب ) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم ( ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں ) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

Narrated Abu Musa: The Prophet was asked about things which he did not like, but when the questioners insisted, the Prophet got angry. He then said to the people, Ask me anything you like. A man asked, Who is my father? The Prophet replied, Your father is Hudhafa. Then another man got up and said, Who is my father, O Allah's Apostle ? He replied, Your father is Salim, Maula (the freed slave) of Shaiba. So when `Umar saw that (the anger) on the face of the Prophet he said, O Allah's Apostle! We repent to Allah (Our offending you).

Haidth Number: 92