Blog
Books
Search Hadith

۔ ۔ ۔

CHAPTER

97 Hadiths Found
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون جا کر ملے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہو گا۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کر دیا تو سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی۔ اورزینب رضی اللہ عنہا ہم سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملیں ‘ صدقہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھا۔

Narrated `Aisha: Some of the wives of the Prophet asked him, Who amongst us will be the first to follow you (i.e. die after you)? He said, Whoever has the longest hand. So they started measuring their hands with a stick and Sauda's hand turned out to be the longest. (When Zainab bint Jahsh died first of all in the caliphate of `Umar), we came to know that the long hand was a symbol of practicing charity, so she was the first to follow the Prophet and she used to love to practice charity. (Sauda died later in the caliphate of Muawiya).

Haidth Number: 1420
Haidth Number: 1885
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔

Narrated Anas: Whenever the Prophet returned from a journey and observed the walls of Medina, he would make his Mount go fast, and if he was on an animal (i.e. a horse), he would make it gallop because of his love for Medina.

Haidth Number: 1886
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ( والی جگہ ) جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض ( کوثر ) پر ہو گا۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, There is a garden from the gardens of Paradise between my house and my pulpit, and my pulpit is on my Lake Fount (Al-Kauthar).

Haidth Number: 1888

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ ، وَبِلَالٌ ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى ، يَقُولُ : كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ ، يَقُولُ : أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَ : اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا ، وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ ، قَالَتْ : وَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهِيَ أَوْبَأُ أَرْضِ اللَّهِ ، قَالَتْ : فَكَانَ بُطْحَانُ يَجْرِي نَجْلًا تَعْنِي مَاءً آجِنًا .

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما بخار میں مبتلا ہو گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بخار میں مبتلا ہوئے تو یہ شعر پڑھتے: ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے: کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل ( گھاس ) ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل ( پہاڑوں ) کو دیکھ سکتا۔ کہا کہ اے میرے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ! اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کر دے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی۔ انہوں نے کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔

Narrated `Aisha: When Allah's Apostle reached Medina, Abu Bakr and Bilal became ill. When Abu Bakr's fever got worse, he would recite (this poetic verse): Everybody is staying alive with his People, yet Death is nearer to him than His shoe laces. And Bilal, when his fever deserted him, would recite: Would that I could stay overnight in A valley wherein I would be Surrounded by Idhkhir and Jalil (kinds of goodsmelling grass). Would that one day I could Drink the water of the Majanna, and Would that (The two mountains) Shama and Tafil would appear to me! The Prophet said, O Allah! Curse Shaiba bin Rabi`a and `Utba bin Rabi`a and Umaiya bin Khalaf as they turned us out of our land to the land of epidemics. Allah's Apostle then said, O Allah! Make us love Medina as we love Mecca or even more than that. O Allah! Give blessings in our Sa and our Mudd (measures symbolizing food) and make the climate of Medina suitable for us, and divert its fever towards Aljuhfa. Aisha added: When we reached Medina, it was the most unhealthy of Allah's lands, and the valley of Bathan (the valley of Medina) used to flow with impure colored water.

Haidth Number: 1889
اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور میری موت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں مقدر کر دے۔ ابن زریع نے روح بن قاسم سے، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے اپنی والدہ سے، انہوں نے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح سنا تھا، ہشام نے بیان کیا، ان سے زید نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا پھر یہی حدیث روایت کی۔

Narrated Zaid bin Aslam from his father: `Umar said, O Allah! Grant me martyrdom in Your cause, and let my death be in the city of Your Apostle.

Haidth Number: 1890
ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔

Narrated Abu Ad-Darda: We set out with Allah's Apostle on one of his journeys on a very hot day, and it was so hot that one had to put his hand over his head because of the severity of heat. None of us was fasting except the Prophet and Ibn Rawaha.

Haidth Number: 1945
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ایک نئے اور سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ اکثر وہ مجھے مغلوب کر کے سب سے آگے نکل جاتا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ اسے ڈانٹ کر پیچھے واپس کر دیتے۔ وہ پھر آگے بڑھ جاتا۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ ڈال۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو آپ ہی کا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مجھے یہ اونٹ دیدے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اونٹ بیچ ڈالا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ بن عمر! اب یہ اونٹ تیرا ہو گیا جس طرح تو چاہے اسے استعمال کر۔

Narrated Ibn 'Umar (ra) : We were accompanying the Prophet (saws) on a journey and I was riding an unmanageable camel belonging to 'Umar (ra), and I could not bring it under my control. So, it used to go ahead of the party and 'Umar would check it and force it to retreat, and again it went ahead and again 'Umar forced it to retreat. The Prophet (saws) asked 'Umar to sell that camel to him. 'Umar replied, It is for you O Allah's Messenger ! Allah's Messenger (saws) told 'Umar to sell that camel to him (not to give it as gift). So, 'Umar sold it to Allah's Messenger (saws). Then the Prophet (saws) said to 'Abdullah bin 'Umar This camel is for you O 'Abdullah (as a present) and you could do with it whatever you like.

Haidth Number: 2115
میں نے امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی وادی قریٰ کی زمین، ان کی خیبر کی زمین کے بدلے میں بیچی تھی۔ پھر جب ہم نے بیع کر لی تو میں الٹے پاؤں ان کے گھر سے اس خیال سے باہر نکل گیا کہ کہیں وہ بیع فسخ نہ کر دیں۔ کیونکہ شریعت کا قاعدہ یہ تھا کہ بیچنے اور خریدنے والے کو ( بیع توڑنے کا ) اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہماری خرید و فروخت پوری ہو گئی اور میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ ( اس تبادلہ کے نتیجے میں، میں نے ان کی پہلی زمین سے ) انہیں تین دن کے سفر کی دوری پر ثمود کی زمین کی طرف دھکیل دیا تھا اور انہوں نے مجھے ( میری مسافت کم کر کے ) مدینہ سے صرف تین دن کے سفر کی دوری پر لا چھوڑا تھا۔

Narrated 'Abdullah bin 'Umar (ra): I bartered my property in Khaibar to 'Uthman (chief of the faithful believers) for his property in Al-Wadi. When we finished the deal, I left immediately and got out of his house lest he should cancel the deal, for the tradition was that they buyer and the seller had the option of canceling the bargain unless they separated. When out deal was completed, I came to know that I have been unfair to 'Uthman, for by selling him my land I caused him to be in a land of Thamud, at a distance of three days journey from Al-Madina, while he made me neared to Al-Madina, at a distance of three days journey from my former land.

Haidth Number: 2116
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مکہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے ) جب ذوالحلیفہ میں نالہ کے نشیب میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب میں کہا گیا کہ آپ اس وقت ایک مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ ( راوی حدیث ) نے بیان کیا کہ سالم ( سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) نے بھی ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا۔ جہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بٹھایا کرتے تھے، تاکہ اس جگہ قیام کر سکیں، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ یہ جگہ وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب میں ہے۔ وادی عقیق اور راستے کے درمیان میں۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: While the Prophet was passing the night at his place of rest in Dhul-Hulaifa in the bottom of the valley (of Aqiq), he saw a dream and it was said to him, You are in a blessed valley. Musa said, Salim let our camels kneel at the place where `Abdullah used to make his camel kneel, seeking the place where Allah's Apostle used to take a rest, which is situated below the mosque which is in the bottom of the valley; it is midway between the mosque and the road.

Haidth Number: 2336
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا فرشتہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وادی عقیق میں قیام کئے ہوئے تھے۔ ( اور اس نے یہ پیغام پہنچایا کہ ) اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور کہا کہ کہہ دیجئیے! عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔

Narrated `Umar: While the Prophet was in Al-`Aqiq he said, Someone (meaning Gabriel) came to me from my Lord tonight (in my dream) and said, 'Offer the prayer in this blessed valley and say (I intend to perform) `Umra along with Hajj (together).'

Haidth Number: 2337

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا يُحَدِّثُ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ ، فَقَالَ لَهُ : أَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ ؟ قَالَ : بَلَى ، وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ ، قَالَ : فَبَذَرَ ، فَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ ، فَكَانَ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ، فَيَقُولُ : اللَّهُ دُونَكَ يَا ابْنَ آدَمَ ، فَإِنَّهُ لَا يُشْبِعُكَ شَيْءٌ ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : وَاللَّهِ لَا تَجِدُهُ إِلَّا قُرَشِيًّا أَوْ أَنْصَارِيًّا ، فَإِنَّهُمْ أَصْحَابُ زَرْعٍ ، وَأَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِأَصْحَابِ زَرْعٍ ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے ایک دیہاتی بھی مجلس میں حاضر تھا کہ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا اپنی موجودہ حالت پر تو راضی نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں! لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس نے بیج ڈالا۔ پلک جھپکنے میں وہ اگ بھی آیا۔ پک بھی گیا اور کاٹ بھی لیا گیا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! اسے رکھ لے، تجھے کوئی چیز آسودہ نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ قسم اللہ کی وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہو گا۔ کیونکہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی ہی نہیں کرتے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آ گئی۔

Narrated Abu Huraira: Once the Prophet was narrating (a story), while a bedouin was sitting with him. One of the inhabitants of Paradise will ask Allah to allow him to cultivate the land. Allah will ask him, 'Are you not living in the pleasures you like?' He will say, 'Yes, but I like to cultivate the land.' The Prophet added, When the man (will be permitted he) will sow the seeds and the plants will grow up and get ripe, ready for reaping and so on till it will be as huge as mountains within a wink. Allah will then say to him, 'O son of Adam! Take here you are, gather (the yield); nothing satisfies you.' On that, the bedouin said, The man must be either from Quraish (i.e. an emigrant) or an Ansari, for they are farmers, whereas we are not farmers. The Prophet smiled (at this).

Haidth Number: 2348

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي الْبَرَاءُ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا . ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : انْطَلَقْتُ ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ يَسُوقُ غَنَمَهُ ، فَقُلْتُ : لِمَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ ، فَسَمَّاهُ ، فَعَرَفْتُهُ ، فَقُلْتُ : هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ، فَقُلْتُ : هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِي ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَأَمَرْتُهُ ، فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْ غَنَمِهِ ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ ضَرْعَهَا مِنَ الْغُبَارِ ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ كَفَّيْهِ ، فَقَالَ : هَكَذَا ضَرَبَ إِحْدَى كَفَّيْهِ بِالْأُخْرَى ، فَحَلَبَ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ ، وَقَدْ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ ، فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ .

( ہجرت کر کے مدینہ جاتے وقت ) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا، جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے؟ اس نے کہا، ہاں ضرور! چنانچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد و غبار سے صاف کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا۔ اس نے ویسا ہی کیا۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کر لیا۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا پھر دودھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے۔ یا رسول اللہ! پی لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔

Narrated Abu Bakr: While I was on my way, all of a sudden I saw a shepherd driving his sheep, I asked him whose servant he was. He replied that he was the servant of a man from Quraish, and then he mentioned his name and I recognized him. I asked, Do your sheep have some milk? He replied in the affirmative. I said, Are you going to milk for me? He replied in the affirmative. I ordered him and he tied the legs of one of the sheep. Then I told him to clean the udder (teats) of dust and to remove dust off his hands. He removed the dust off his hands by clapping his hands. He then milked a little milk. I put the milk for Allah's Apostle in a pot and closed its mouth with a piece of cloth and poured water over it till it became cold. I took it to the Prophet and said, Drink, O Allah's Apostle! He drank it till I was pleased.

Haidth Number: 2439

حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ ، فَقَالَ : إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ , مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ ؟ وَمَا بَالُ الْوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ ؟ قَالَ : أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا ، قَالَ ابْنُ سَلَامٍ : ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ ، قَالَ : أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوتِ ، وَأَمَّا الْوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الْوَلَدَ ، قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي , فَجَاءَتْ الْيَهُودُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فِيكُمْ ؟ قَالُوا : خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا , وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ، قَالُوا : أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالُوا : مِثْلَ ذَلِكَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ ، فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، قَالُوا : شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَتَنَقَّصُوهُ ، قَالَ : هَذَا كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ .

جب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ سے چند سوال کرنے کے لیے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھوں گا جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہو گی؟ اہل جنت کی ضیافت سب سے پہلے کس کھانے سے کی جائے گی؟ اور کیا بات ہے کہ بچہ کبھی باپ پر جاتا ہے اور کبھی ماں پر؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جواب ابھی مجھے جبرائیل نے آ کر بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام نے کہا کہ یہ ملائکہ میں یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی۔ جس کھانے سے سب سے پہلے اہل جنت کی ضیافت ہو گی وہ مچھلی کی کلیجی کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا ( جو نہایت لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے ) اور بچہ باپ کی صورت پر اس وقت جاتا ہے جب عورت کے پانی پر مرد کا پانی غالب آ جائے اور جب مرد کے پانی پر عورت کا پانی غالب آ جائے تو بچہ ماں پر جاتا ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہودی بڑے بہتان لگانے والے لوگ ہیں۔ اس لیے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام کے بارے میں انہیں کچھ معلوم ہو، ان سے میرے متعلق دریافت فرمائیں۔ چنانچہ چند یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہاری قوم میں عبداللہ بن سلام کون ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر کے بیٹے ہیں، ہم میں سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اسلام لائیں؟ وہ کہنے لگے اس سے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی پناہ میں رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اور انہوں نے یہی جواب دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آئے اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ اب وہ کہنے لگے یہ تو ہم میں سب سے بدتر آدمی ہیں اور سب سے بدتر باپ کے بیٹے ہیں۔ فوراً ہی برائی شروع کر دی، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اسی کا مجھے ڈر تھا۔

Narrated Anas: When the news of the arrival of the Prophet at Medina reached `Abdullah bin Salam, he went to him to ask him about certain things, He said, I am going to ask you about three things which only a Prophet can answer: What is the first sign of The Hour? What is the first food which the people of Paradise will eat? Why does a child attract the similarity to his father or to his mother? The Prophet replied, Gabriel has just now informed me of that. Ibn Salam said, He (i.e. Gabriel) is the enemy of the Jews amongst the angels. The Prophet said, As for the first sign of The Hour, it will be a fire that will collect the people from the East to the West. As for the first meal which the people of Paradise will eat, it will be the caudate (extra) lobe of the fish-liver. As for the child, if the man's discharge proceeds the woman's discharge, the child attracts the similarity to the man, and if the woman's discharge proceeds the man's, then the child attracts the similarity to the woman. On this, `Abdullah bin Salam said, I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and that you are the Apostle of Allah. and added, O Allah's Apostle! Jews invent such lies as make one astonished, so please ask them about me before they know about my conversion to I slam . The Jews came, and the Prophet said, What kind of man is `Abdullah bin Salam among you? They replied, The best of us and the son of the best of us and the most superior among us, and the son of the most superior among us. The Prophet said, What would you think if `Abdullah bin Salam should embrace Islam? They said, May Allah protect him from that. The Prophet repeated his question and they gave the same answer. Then `Abdullah came out to them and said, I testify that None has the right to be worshipped except Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah! On this, the Jews said, He is the most wicked among us and the son of the most wicked among us. So they degraded him. On this, he (i.e. `Abdullah bin Salam) said, It is this that I was afraid of, O Allah's Apostle.

Haidth Number: 3938

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ أَبَا الْمِنْهَالِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُطْعِمٍ ، قَالَ : بَاعَ شَرِيكٌ لِي دَرَاهِمَ فِي السُّوقِ نَسِيئَةً ، فَقُلْتُ : سُبْحَانَ اللَّهِ أَيَصْلُحُ هَذَا ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ بِعْتُهَا فِي السُّوقِ فَمَا عَابَهُ أَحَدٌ , فَسَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، فَقَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ هَذَا الْبَيْعَ ، فَقَالَ : مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَيْسَ بِهِ بَأْسٌ , وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَلَا يَصْلُحُ , وَالْقَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَاسْأَلْهُ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْظَمَنَا تِجَارَةً , فَسَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَقَالَ : مِثْلَهُ ، وَقَالَ سُفْيَانُ : مَرَّةً ، فَقَالَ : قَدِمَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ ، وَقَالَ : نَسِيئَةً إِلَى الْمَوْسِمِ أَوِ الْحَجِّ .

میرے ایک ساجھی نے بازار میں چند درہم ادھار فروخت کیے، میں نے اس سے کہا: سبحان اللہ! کیا یہ جائز ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں نے بازار میں اسے بیچا تو کسی نے بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا۔ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( ہجرت کر کے ) تشریف لائے تو اس طرح خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید و فروخت کی اس صورت میں اگر معاملہ دست بدست ( نقد ) ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر ادھار پر معاملہ کیا تو پھر یہ صورت جائز نہیں اور زید بن ارقم سے بھی مل کر اس کے متعلق پوچھ لو کیونکہ وہ ہم میں بڑے سوداگر تھے۔ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ سفیان نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے یہاں مدینہ تشریف لائے تو ہم ( اس طرح کی ) خرید و فروخت کیا کرتے تھے اور بیان کیا کہ ادھار موسم تک کے لیے یا ( یوں بیان کیا کہ ) حج تک کے لیے۔

Narrated Abu Al-Minhal `AbdurRahman bin Mut`im: A partner of mine sold some Dirhams on credit in the market. I said, Glorified be Allah! Is this legal? He replied, Glorified be Allah! By Allah, when I sold them in the market, nobody objected to it. Then I asked Al-Bara' bin `Azib (about it) he said, We used to make such a transaction when the Prophet came to Medina. So he said, 'There is no harm in it if it is done from hand to hand, but it is not allowed on credit.' Go to Zaid bin Al- Arqam and ask him about it for he was the greatest trader of all of us. So I asked Zaid bin Al-Arqam., and he said the same (as Al-Bara) did.

Haidth Number: 3939

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ أَبَا الْمِنْهَالِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُطْعِمٍ ، قَالَ : بَاعَ شَرِيكٌ لِي دَرَاهِمَ فِي السُّوقِ نَسِيئَةً ، فَقُلْتُ : سُبْحَانَ اللَّهِ أَيَصْلُحُ هَذَا ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ بِعْتُهَا فِي السُّوقِ فَمَا عَابَهُ أَحَدٌ , فَسَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، فَقَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ هَذَا الْبَيْعَ ، فَقَالَ : مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَيْسَ بِهِ بَأْسٌ , وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَلَا يَصْلُحُ , وَالْقَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَاسْأَلْهُ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْظَمَنَا تِجَارَةً , فَسَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَقَالَ : مِثْلَهُ ، وَقَالَ سُفْيَانُ : مَرَّةً ، فَقَالَ : قَدِمَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ ، وَقَالَ : نَسِيئَةً إِلَى الْمَوْسِمِ أَوِ الْحَجِّ .

میرے ایک ساجھی نے بازار میں چند درہم ادھار فروخت کیے، میں نے اس سے کہا: سبحان اللہ! کیا یہ جائز ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں نے بازار میں اسے بیچا تو کسی نے بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا۔ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( ہجرت کر کے ) تشریف لائے تو اس طرح خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید و فروخت کی اس صورت میں اگر معاملہ دست بدست ( نقد ) ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر ادھار پر معاملہ کیا تو پھر یہ صورت جائز نہیں اور زید بن ارقم سے بھی مل کر اس کے متعلق پوچھ لو کیونکہ وہ ہم میں بڑے سوداگر تھے۔ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ سفیان نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے یہاں مدینہ تشریف لائے تو ہم ( اس طرح کی ) خرید و فروخت کیا کرتے تھے اور بیان کیا کہ ادھار موسم تک کے لیے یا ( یوں بیان کیا کہ ) حج تک کے لیے۔

Narrated Abu Al-Minhal `AbdurRahman bin Mut`im: A partner of mine sold some Dirhams on credit in the market. I said, Glorified be Allah! Is this legal? He replied, Glorified be Allah! By Allah, when I sold them in the market, nobody objected to it. Then I asked Al-Bara' bin `Azib (about it) he said, We used to make such a transaction when the Prophet came to Medina. So he said, 'There is no harm in it if it is done from hand to hand, but it is not allowed on credit.' Go to Zaid bin Al- Arqam and ask him about it for he was the greatest trader of all of us. So I asked Zaid bin Al-Arqam., and he said the same (as Al-Bara) did.

Haidth Number: 3940
( سورۃ نساء کی اس آیت سے ) «لا يستوي القاعدون من المؤمنين‏» جہاد میں شرکت کرنے والے اور اس میں شریک نہ ہونے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ وہ لوگ مراد ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے اور جو اس میں شریک نہیں ہوئے۔

Narrated Ibn `Abbas: The believers who failed to join the Ghazwa of Badr and those who took part in it are not equal (in reward).

Haidth Number: 3954
ابوسعید بن مالک خدری رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے تو ان کے گھر والے قربانی کا گوشت ان کے سامنے لائے، انہوں نے کہا کہ میں اسے اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لوں۔ چنانچہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے اپنے ایک بھائی کے پاس معلوم کرنے گئے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے یعنی قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں وہ حکم منسوخ کر دیا گیا تھا جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت کی گئی تھی۔

Narrated Ibn `Abbas: Abu Sa`id bin Malik Al-Khudri returned from a journey and his family offered him some meat of sacrifices offered at `Id ul Adha. On that he said, I will not eat it before asking (whether it is allowed). He went to his maternal brother, Qatada bin N i 'man, who was one of the Badr warriors, and asked him about it. Qatada said, After your departure, an order was issued by the Prophet cancelling the prohibition of eating sacrifices after three days.

Haidth Number: 3997

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ الزُّبَيْرُ : لَقِيتُ يَوْمَ بَدْرٍ عُبَيْدَةَ بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ وَهُوَ مُدَجَّجٌ لَا يُرَى مِنْهُ إِلَّا عَيْنَاهُ , وَهُوَ يُكْنَى أَبُو ذَاتِ الْكَرِشِ ، فَقَالَ : أَنَا أَبُو ذَاتِ الْكَرِشِ فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ بِالْعَنَزَةِ فَطَعَنْتُهُ فِي عَيْنِهِ فَمَاتَ ، قَالَ هِشَامٌ : فَأُخْبِرْتُ أَنَّ الزُّبَيْرَ ، قَالَ : لَقَدْ وَضَعْتُ رِجْلِي عَلَيْهِ , ثُمَّ تَمَطَّأْتُ فَكَانَ الْجَهْدَ أَنْ نَزَعْتُهَا وَقَدِ انْثَنَى طَرَفَاهَا ، قَالَ عُرْوَةُ : فَسَأَلَهُ إِيَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُ , فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا ، ثُمَّ طَلَبَهَا أَبُو بَكْرٍ فَأَعْطَاهُ , فَلَمَّا قُبِضَ أَبُو بَكْرٍ سَأَلَهَا إِيَّاهُ عُمَرُ , فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا , فَلَمَّا قُبِضَ عُمَرُ أَخَذَهَا , ثُمَّ طَلَبَهَا عُثْمَانُ مِنْهُ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا , فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ وَقَعَتْ عِنْدَ آلِ عَلِيٍّ فَطَلَبَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ فَكَانَتْ عِنْدَهُ حَتَّى قُتِلَ .

بدر کی لڑائی میں میری مڈبھیڑ عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہو گئی۔ اس کا سارا جسم لوہے میں غرق تھا اور صرف آنکھ دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی کنیت ابوذات الکرش تھی۔ کہنے لگا کہ میں ابوذات الکرش ہوں۔ میں نے چھوٹے برچھے سے اس پر حملہ کیا اور اس کی آنکھ ہی کو نشانہ بنایا۔ چنانچہ اس زخم سے وہ مر گیا۔ ہشام نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے اپنا پاؤں اس کے اوپر رکھ کر پورا زور لگایا اور بڑی دشواری سے وہ برچھا اس کی آنکھ سے نکال سکا۔ اس کے دونوں کنارے مڑ گئے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کا وہ برچھا طلب فرمایا تو انہوں نے وہ پیش کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو انہوں نے اسے واپس لے لیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تو انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا۔ انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہوں نے اسے لے لیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تو انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا اور ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس اور اس کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے لے لیا اور ان کے پاس ہی رہا، یہاں تک کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔

Narrated `Urwa: Az-Zubair said, I met Ubaida bin Sa`id bin Al-As on the day (of the battle) of Badr and he was covered with armor; so much that only his eyes were visible. He was surnamed Abu Dhat-al-Karish. He said (proudly), 'I am Abu-al-Karish.' I attacked him with the spear and pierced his eye and he died. I put my foot over his body to pull (that spear) out, but even then I had to use a great force to take it out as its both ends were bent. `Urwa said, Later on Allah's Apostle asked Az-Zubair for the spear and he gave it to him. When Allah's Apostle died, Az-Zubair took it back. After that Abu Bakr demanded it and he gave it to him, and when Abu Bakr died, Az-Zubair took it back. `Umar then demanded it from him and he gave it to him. When `Umar died, Az-Zubair took it back, and then `Uthman demanded it from him and he gave it to him. When `Uthman was martyred, the spear remained with `Ali's offspring. Then `Abdullah bin Az-Zubair demanded it back, and it remained with him till he was martyred.

Haidth Number: 3998
مجھے ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے، وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھ سے بیعت کرو۔

Narrated 'Ubada bin As-Samit: (who was one of the Badr warriors) Allah's Apostle said, Give me the pledge of allegiance.

Haidth Number: 3999

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَنَّى سَالِمًا وَأَنْكَحَهُ بِنْتَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا , وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ إِلَيْهِ , وَوَرِثَ مِنْ مِيرَاثِهِ , حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى : ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ سورة الأحزاب آية 5 فَجَاءَتْ سَهْلَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ .

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں تھے، نے سالم رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ سے شادی کرا دی تھی۔ سالم رضی اللہ عنہ ایک انصاری خاتون کے غلام تھے۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیتا تو لوگ اسی کی طرف اسے منسوب کر کے پکارتے اور منہ بولا بیٹا اس کی میراث کا بھی وارث ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ادعوهم لآبائهم‏» ”انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو۔“ تو سہلہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ پھر تفصیل سے راوی نے حدیث بیان کی۔

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) Abu Hudhaifa, one of those who fought the battle of Badr, with Allah's Apostle adopted Salim as his son and married his niece Hind bint Al-Wahd bin `Utba to him' and Salim was a freed slave of an Ansari woman. Allah's Apostle also adopted Zaid as his son. In the Prelslamic period of ignorance the custom was that, if one adopted a son, the people would call him by the name of the adopted-father whom he would inherit as well, till Allah revealed: Call them (adopted sons) By (the names of) their fathers. (33.5)

Haidth Number: 4000
جس رات میری شادی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی صبح کو میرے یہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے، جیسے اب تم یہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں ان کے ان خاندان والوں کا ذکر تھا جو بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔ انہیں میں ایک لڑکی نے یہ مصرع بھی پڑھا کہ ہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ پڑھو، بلکہ جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو۔

Narrated Ar-Rubai bint Muauwidh: The Prophet came to me after consuming his marriage with me and sat down on my bed as you (the sub-narrator) are sitting now, and small girls were beating the tambourine and singing in lamentation of my father who had been killed on the day of the battle of Badr. Then one of the girls said, There is a Prophet amongst us who knows what will happen tomorrow. The Prophet said (to her), Do not say this, but go on saying what you have spoken before.

Haidth Number: 4001
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک تھے کہ فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جس میں تصویر یا کتا ہو۔ ان کی مراد جاندار کی تصویر سے تھی۔

Narrated Ibn `Abbas: Abu Talha, a companion of Allah's Apostle and one of those who fought at Badr together with Allah's Apostle told me that Allah's Apostle said. Angels do not enter a house in which there is a dog or a picture He meant the images of creatures that have souls.

Haidth Number: 4002

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَيْهِمُ السَّلَام أَخْبَرَهُ ، أَنَّ عَلِيًّا ، قَالَ : كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ , فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا فِي بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ , فَأَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَنَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي , فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَيَّ مِنَ الْأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ حَتَّى جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ , فَإِذَا أَنَا بِشَارِفَيَّ قَدْ أُجِبَّتْ أَسْنِمَتُهَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا , فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ الْمَنْظَرَ ، قُلْتُ : مَنْ فَعَلَ هَذَا ؟ قَالُوا : فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الْأَنْصَارِ عِنْدَهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابُهُ ، فَقَالَتْ : فِي غِنَائِهَا أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ فَوَثَبَ حَمْزَةُ إِلَى السَّيْفِ , فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا ، قَالَ عَلِيٌّ : فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ وَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ ، فَقَالَ : مَا لَكَ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ , فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَى ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ , فَأُذِنَ لَهُ فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ , فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ , فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ : وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي , فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ , فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ .

جنگ بدر کی غنیمت میں سے مجھے ایک اور اونٹنی ملی تھی اور اسی جنگ کی غنیمت میں سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خمس کے طور پر حصہ مقرر کیا تھا اس میں سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی۔ پھر میرا ارادہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کرا لاؤں۔ اس لیے بنی قینقاع کے ایک سنار سے بات چیت کی کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس کو سناروں کے ہاتھ بیچ دوں گا اور اس کی قیمت ولیمہ کی دعوت میں لگاؤں گا۔ میں ابھی اپنی اونٹنی کے لیے پالان، ٹوکرے اور رسیاں جمع کر رہا تھا۔ اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے حجرہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں جن انتظامات میں تھا جب وہ پورے ہو گئے تو ( اونٹنیوں کو لینے آیا ) وہاں دیکھا کہ ان کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں اور کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ میں نے پوچھا، یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اور وہ ابھی اسی حجرہ میں انصار کے ساتھ شراب نوشی کی ایک مجلس میں موجود ہیں۔ ان کے پاس ایک گانے والی ہے اور ان کے دوست احباب ہیں۔ گانے والی نے گاتے ہوئے جب یہ مصرع پڑھا۔ ہاں، اے حمزہ! یہ عمدہ اور فربہ اونٹنیاں ہیں، تو حمزہ رضی اللہ عنہ نے کود کر اپنی تلوار تھامی اور ان دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے غم کو پہلے ہی جان لیا اور فرمایا کہ کیا بات پیش آئی؟ میں بولا: یا رسول اللہ! آج جیسی تکلیف کی بات کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میری دونوں اونٹنیوں کو پکڑ کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر ڈالی ہے۔ وہ یہیں ایک گھر میں شراب کی مجلس جمائے بیٹھے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک منگوائی اور اسے اوڑھ کر آپ تشریف لے چلے۔ میں اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ ساتھ ہولئے۔ جب اس گھر کے قریب آپ تشریف لے گئے اور حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا اس پر انہیں تنبیہ فرمائی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ شراب کے نشے میں مست تھے اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر اٹھائی، پھر ذرا اور اوپر اٹھائی اور آپ کے گھٹنوں پر دیکھنے لگے، پھر اور نظر اٹھائی اور آپ کے چہرہ پر دیکھنے لگے۔ پھر کہنے لگے، تم سب میرے باپ کے غلام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ وہ اس وقت بیہوش ہیں۔ اس لیے آپ فوراً الٹے پاؤں اس گھر سے باہر نکل آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔

Narrated `Ali: I had a she-camel which I got in my share from the booty of the battle of Badr, and the Prophet had given me another she camel from the Khumus which Allah had bestowed on him that day. And when I intended to celebrate my marriage to Fatima, the daughter of the Prophet, I made an arrangement with a goldsmith from Bani Qainuqa 'that he should go with me to bring Idhkhir (i.e. a kind of grass used by gold-smiths) which I intended to sell to gold-smiths in order to spend its price on the marriage banquet. While I was collecting ropes and sacks of pack saddles for my two she-camels which were kneeling down beside an Ansari's dwelling and after collecting what I needed, I suddenly found that the humps of the two she-camels had been cut off and their flanks had been cut open and portions of their livers had been taken out. On seeing that, I could not help weeping. I asked, Who has done that? They (i.e. the people) said, Hamza bin `Abdul Muttalib has done it. He is present in this house with some Ansari drinkers, a girl singer, and his friends. The singer said in her song, O Hamza, get at the fat she-camels! On hearing this, Hamza rushed to his sword and cut of the camels' humps and cut their flanks open and took out portions from their livers. Then I came to the Prophet, with whom Zaid bin Haritha was present. The Prophet noticed my state and asked, What is the matter? I said, O Allah's Apostle, I have never experienced such a day as today! Hamza attacked my two she-camels, cut off their humps and cut their flanks open, and he is still present in a house along some drinkers. The Prophet asked for his cloak, put it on, and proceeded, followed by Zaid bin Haritha and myself, till he reached the house where Hamza was. He asked the permission to enter, and he was permitted. The Prophet started blaming Hamza for what he had done. Hamza was drunk and his eyes were red. He looked at the Prophet then raised his eyes to look at his knees and raised his eves more to look at his face and then said, You are not but my father's slaves. When the Prophet understood that Hamza was drunk, he retreated, walking backwards went out and we left with him.

Haidth Number: 4003
Haidth Number: 4004

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَدْ شَهِدَ بَدْرًا تُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ ، قَالَ عُمَرُ : فَلَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ ، فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ ، قَالَ : سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ، فَقَالَ : قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا ، قَالَ عُمَرُ : فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ ، فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا , فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ ، فَقَالَ : لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ ، قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا , فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا .

جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں تھے اور بدر کی لڑائی میں انہوں نے شرکت کی تھی اور مدینہ میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری ملاقات عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کا نکاح میں آپ سے کر دوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گا۔ اس لیے میں چند دنوں کے لیے ٹھہر گیا، پھر انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہوئی ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا یہ طریقہ عمل عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ میرے لیے باعث تکلیف ہوا۔ کچھ دنوں میں نے اور توقف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا، شاید آپ کو میرے اس طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں تکلیف ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مجھ سے ) حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا ( مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ میں اس سے نکاح کر لوں ) اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا۔ اگر آپ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بیشک میں ان سے نکاح کر لیتا۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab said, When (my daughter) Hafsa bint `Umar lost her husband Khunais bin Hudhaifa As-Sahrni who was one of the companions of Allah's Apostle and had fought in the battle of Badr and had died in Medina, I met `Uthman bin `Affan and suggested that he should marry Hafsa saying, If you wish, I will marry Hafsa bint `Umar to you,' on that, he said, 'I will think it over.' I waited for a few days and then he said to me. 'I am of the opinion that I shall not marry at present.' Then I met Abu Bakr and said, 'if you wish, I will marry you, Hafsa bint `Umar.' He kept quiet and did not give me any reply and I became more angry with him than I was with `Uthman . Some days later, Allah's Apostle demanded her hand in marriage and I married her to him. Later on Abu Bakr met me and said, Perhaps you were angry with me when you offered me Hafsa for marriage and I gave no reply to you?' I said, 'Yes.' Abu Bakr said, 'Nothing prevented me from accepting your offer except that I learnt that Allah's Apostle had referred to the issue of Hafsa and I did not want to disclose the secret of Allah's Apostle , but had he (i.e. the Prophet) given her up I would surely have accepted her.

Haidth Number: 4005
ہم سے مسلم بن ابراہیم قصاب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ابان نے، ان سے عبداللہ بن یزید انصاری نے، انہوں نے ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ عقبہ بن عمرو انصاری سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انسان کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے۔“

Narrated Abu Masud Al-Badri: The Prophet said, A man's spending on his family is a deed of charity.

Haidth Number: 4006
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جب کوفہ کے امیر تھے، تو انہوں نے ایک دن عصر کی نماز میں دیر کی۔ اس پر زید بن حسن کے نانا ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ان کے یہاں گئے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے تھے اور کہا: آپ کو معلوم ہے کہ جبرائیل علیہ السلام ( نماز کا طریقہ بتانے کے لیے ) آئے اور آپ نے نماز پڑھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے نماز پڑھی، پانچوں وقت کی نمازیں۔ پھر فرمایا کہ اسی طرح مجھے حکم ملا ہے۔ بشیر بن ابی مسعود بھی یہ حدیث اپنے والد سے بیان کرتے تھے۔

Narrated Az-Zuhri: I heard `Urwa bin Az-Zubair talking to `Umar bin `Abdul `Aziz during the latter's Governorship (at Medina), he said, Al-Mughira bin Shu`ba delayed the `Asr prayer when he was the ruler of Al-Kufa. On that, Abu Mas`ud. `Uqba bin `Amr Al-Ansari, the grand-father of Zaid bin Hasan, who was one of the Badr warriors, came in and said, (to Al-Mughira), 'You know that Gabriel came down and offered the prayer and Allah's Apostle prayed five prescribed prayers, and Gabriel said (to the Prophet ), I have been ordered to do so (i.e. offer these five prayers at these fixed stated hours of the day).

Haidth Number: 4007
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ کی دو آیتیں ( «امن الرسول» سے آخر تک ) ایسی ہیں کہ جو شخص رات میں انہیں پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ پھر میں نے خود ابومسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، وہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی۔

Narrated Abu Masud Al-Badri: Allah's Apostle said, It is sufficient for one to recite the last two Verses of Surat-al-Baqara at night.

Haidth Number: 4008
عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور وہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور انصار میں سے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

Narrated Mahmud bin Ar-Rabi: That `Itban bin Malik who was one of the companions of the Prophet and one of the warriors of Badr, came to Allah's Apostle.

Haidth Number: 4009