عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، (صلح حدیبیہ کے سال) رسول اللہ ﷺ کو (عمرہ کرنے سے) روک دیا گیا تو آپ ﷺ نے اپنا سر منڈایا ، اپنی ازواج مطہرات سے جماع کیا اور قربانی کی ، اور پھر اگلے سال عمرہ کیا ۔ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (عمرہ کرنے کے لیے) روانہ ہوئے تو قریش بیت اللہ پہنچنے سے پہلے حائل ہو گئے تو نبی ﷺ نے اپنی قربانیاں ذبح کیں ، اور آپ نے اپنا سر منڈایا جبکہ آپ کے بعض صحابہ نے سر کے بال کترائے ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں ! اگر تم میں سے کسی کو حج سے روک دیا جائے تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا مروہ کی سعی کرے ، پھر ہر چیز سے حلال ہو جائے (احرام کی پابندی ختم ہو جائے) حتی کہ اگلے سال حج کرے اور قربانی کرے ، اگر قربانی میسر نہ ہو تو پھر روزے رکھے ۔ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ ضباعہ بنت زبیر ؓ کے پاس گئے تو ان سے فرمایا :’’ شاید کہ آپ نے حج کا ارادہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! مجھے کچھ تکلیف ہے ، آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ حج کریں اور شرط قائم کر لیں ، اس طرح کہیں : اے اللہ ! میرے حلال ہونے کی جگہ وہی ہو گی جہاں تو مجھے (تکلیف کی وجہ سے آگے جانے سے) روک لے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو حکم فرمایا کہ انہوں نے حدیبیہ کے سال جو قربانی کی تھی اس کے بدلے میں اب عمرۃ القضاء میں قربانی کریں ۔ ابوداؤد ۔ اس میں قصہ ہے اور اس کی سند میں محمد بن اسحاق (مدلس) ہے ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
حجاج بن عمرو انصاری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا اور وہ اگلے سال حج کرے ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ۔ اور ابوداؤد نے ایک دوسری روایت میں اضافہ نقل کیا ہے :’’ یا وہ بیمار ہو جائے ۔‘‘ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے ۔ اور مصابیح میں ضعیف ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی وابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
عبدالرحمن بن یعمر دیلی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ حج وقوفِ عرفات ہی ہے ، جو شخص مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے عرفہ میں قیام کر لے تو اس نے حج پا لیا ، اور منیٰ کے ایام تین ہیں ، جو شخص دو دن میں جلدی کر کے فارغ ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو شخص تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔