ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص تابیر (پیوند) کے بعد کھجور کا درخت خریدے تو اگر خریدار شرط قائم نہ کرے تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے ، اور جو شخص کوئی غلام بیچے اور اس کا کچھ مال ہو تو وہ مال بیچنے والے کا ہے ، اِلاّ یہ کہ خریدار اس کی شرط قائم کر لے ۔‘‘ مسلم ، اور امام بخاری ؒ نے صرف پہلا حصہ ہی بیان کیا ہے ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک ذاتی اونٹ پر سفر کر رہے تھے جو کہ تھک چکا تھا ، اسی اثنا میں نبی ﷺ اس کے پاس سے گزرے تو آپ نے اسے مارا تو وہ یوں چلنے لگا کہ وہ پہلے کبھی ایسے نہیں چلتا تھا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے ایک اوقیہ کے بدلے میں مجھے بیچ دو ۔‘‘ جابر ؓ نے عرض کیا ، میں نے اسے بیچ دیا البتہ میں نے اپنے اہل و عیال تک پہنچنے کی مہلت لے لی ، جب میں مدینہ پہنچا تو میں اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کی قیمت مجھے ادا کر دی ۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے : میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی اور وہ اونٹ بھی واپس کر دیا ۔ بخاری ، مسلم ۔ اور صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ نے بلال ؓ کو فرمایا :’’ اسے قیمت ادا کر دو اور زیادہ بھی دو ۔‘‘ انہوں نے مجھے قیمت بھی ادا کی اور ایک قراط مزید عطا کیا ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، بریرہ ؓ آئیں تو انہوں نے کہا : میں نے نو اوقیہ پر (آزادی حاصل کرنے کے لیے) کتابت کی ہے ۔ اور ہر سال ایک اوقیہ دینا ہے ، لہذا آپ ؓ میری مدد فرمائیں ، عائشہ ؓ نے فرمایا : اگر تمہارے مالک پسند کریں تو میں یہ رقم ایک ہی مرتبہ ادا کر دیتی ہوں ، اور تمہیں آزاد کرا دیتی ہوں ، لیکن تمہاری ولا (وراثت) میری ہو گی ، وہ اپنے مالکوں کے پاس گئیں تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ولا ان کے لیے ہو گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے خرید کر آزاد کر دو ۔‘‘ پھر آپ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا :’’ اما بعد ! لوگوں کو کیا ہوا کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں ، اور جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو ، خواہ وہ سو شرطیں ہوں ، تو وہ باطل ہیں ، اللہ کی قضا زیادہ حق رکھتی ہے ، اور اللہ کی شرط زیادہ معتبر ہے ، اور ولا آزاد کرنے والے کا حق ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
مخلد بن خُفاف بیان کرتے ہیں ، میں نے ایک غلام خریدا تو میں نے اس سے آمدنی حاصل کی ، پھر مجھے اس کے ایک نقص کا پتہ چلا تو میں اس کا مقدمہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس لے گیا تو انہوں نے اسے واپس کرنے کا فیصلہ میرے حق میں کیا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی واپس لوٹانے کا فیصلہ میرے خلاف کیا ، میں عروہ ؒ کے پاس گیا ، اور انہیں سارا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا : میں پچھلے پہر ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ عائشہ ؓ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے معاملے کا فیصلہ کیا کہ خراج ، ضمان کے بدلے میں ہے ، عروہ ؒ پچھلے پہر ان کے پاس گئے (اور انہیں بتایا) تو انہوں نے میرے حق میں فیصلہ کیا کہ میں اس شخص سے وہ خراج کی رقم واپس لے لوں جو انہوں نے مجھ سے لے کر اسے دلوائی تھی ۔ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی ، جبکہ خریدار کو اختیار حاصل ہو گا ۔ ترمذی ، ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں ہے ۔ فرمایا :’’ جب خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہو جائے جبکہ فروخت شدہ چیز ویسے ہی موجود ہو اور ان دونوں کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی ، یا پھر وہ بیع واپس کر دیں گے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی مسلمان کی بیع واپس کر دے تو روز قیامت اللہ تعالیٰ اس کی لغزشیں معاف فرما دے گا ۔‘‘ ابوداؤد ، ابن ماجہ ۔ جبکہ شرح السنہ میں مصابیح کے الفاظ کے ساتھ شریح شامی ؒ سےمرسل روایت ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و فی شرح السنہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ پہلے زمانے میں ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے زمین خریدی تو جس شخص نے زمین خریدی تھی اس نے زمین میں ایک گھڑا پایا جس میں سونا تھا ، جس شخص نے زمین خریدی تھی اس نے اسے کہا : تم اپنا سونا مجھ سے لے لو کیونکہ میں نے تو تم سے صرف زمین خریدی تھی ، سونا نہیں خریدا تھا ۔ زمین بیچنے والے نے کہا : میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہیں بیچ دیا تھا ، وہ دونوں اپنا مقدمہ ایک آدمی کے پاس لے گئے ، تو جس آدمی کے پاس وہ مقدمہ لے کر گئے تھے ، اس نے کہا : کیا تمہاری اولاد ہے ؟ ان میں سے ایک نے کہا : میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا : میری ایک لڑکی ہے ، تو اس آدمی نے کہا : لڑکے کی لڑکی سے شادی کر دو ، اور اس (مال) کو ان دونوں پر خرچ کر دو اور اس میں سے کچھ صدقہ کر دو ۔‘‘ متفق علیہ ۔