رُبَّیع بنت معوذ بن عفراء ؓ بیان کرتی ہیں ، جب مجھے شادی کے بعد میرے خاوند کے گھر لایا گیا تو نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح آپ (حدیث کے راوی خالد بن ذکوان) مجھ سے (دور) بیٹھے ہیں ، پس انصار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجا کر میرے ان اباء جو غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے ، کے محاسن بیان کرنے لگیں ، کہ اچانک ان میں سے ایک نے کہہ دیا : ہم میں ایک نبی ہیں ، جو مستقبل کے واقعات جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے چھوڑو ، اور جو تم پہلے کہہ رہی تھیں وہی کہو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ایک عورت کی ایک انصاری صحابی کے ساتھ رخصتی ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہارے پاس کھیل کود کا سامان نہیں تھا ؟ کیونکہ انصار کو دف اور اشعار کہنا اچھا لگتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے شوال میں مجھ سے شادی کی اور شوال میں مجھے اپنے گھر لائے اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کون سی وہ بیوی ہے جسے آپ کے ہاں مجھ سے اہم مقام حاصل تھا ؟ رواہ مسلم ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جن شروط کے ساتھ تم نے شرم گاہوں کو حلال بنایا ہے ، وہ (شروط) زیادہ حق رکھتی ہیں کہ انہیں پورا کیا جائے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کے پیغامِ نکاح پر پیغامِ نکاح نہ بھیجے حتی کہ وہ نکاح کر لے یا چھوڑ دے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عورت اپنی (مسلمان) بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اسے اس کا رزق بھی مل جائے اسے چاہیے کہ وہ اس مرد سے خود شادی کر لے ، حالانکہ جو اس کے مقدر میں ہے وہ اسے مل جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’نکاح شغار‘‘ سے منع فرمایا ہے ۔ اور شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ دوسرا آدمی اپنی بیٹی کی شادی اس سے کر دے اور ان دونوں کے درمیان مہر نہ ہو ۔‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام میں شغار (بٹے کا نکاح) نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز میں تشہد پڑھنا سکھائی اور حاجت (نکاح وغیرہ) میں تشہد سکھائی ، راوی بیان کرتے ہیں ، نماز میں تشہد کے الفاظ یہ ہیں :
((التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ))
’’قولی ، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں ، اے نبی ! آپ پر سلامتی ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں ، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ اور کسی حاجت و ضرورت کے وقت پڑھا جانے والا تشہد یہ ہے :
((اِنَّ الْحَمْدَ لِلہِ نَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا ، مِنْ یَّھْدِہِ اللہُ فَلَا مُضِلَّ لَہ ، وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہ ، وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ))
’’بے شک ہر قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے ، ہم اسی سے مدد چاہتے اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں ، ہم اپنے نفوس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ جس کو اللہ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘
اور آپ ﷺ یہ تین آیات تلاوت فرماتے :
(یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ۔ )
’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ اور تم اس حال میں مرو کہ تم مسلمان ہو ۔‘‘
(یَآیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مَّنْ نَّفْسِِ وَّاحِدَۃِِ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہِ وَالَا رْ حَامَ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ۔)
’’اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک شخص (حضرت آدم ؑ) سے پیدا کیا ، اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا ، پھر ان دونوں سے بڑی تعداد میں مرد اور عورتیں پیدا کر کے انہیں روئے زمین پر پھیلا دیا اور ڈرو اللہ سے جس کے ذریعے تم اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہو ، اور قطع رحمی سے بچو ۔ اللہ تعالیٰ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘
(یَآ اَیُّھَا الَّذِیْ امَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لکُمْ اَعْمَالکُمْ وَیَغْفِرْلکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ۔)
’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور درست بات کرو ، وہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے وہ بہت بڑی کامیابی حاصل کر لے گا ۔‘‘
اور جامع ترمذی میں ہے ۔ سفیان ثوری نے تینوں آیات کی وضاحت کی ۔ اور ابن ماجہ نے ((اِنَّ الْحَمْدَ لِلہِ)) کے بعد ((نَحْمَدُہُ)) اور ((مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا)) کے بعد ((وَمِنْ سَیَّئَاتِ اَعْمَالِنَا)) کا اضافہ نقل کیا اور دارمی نے (عَظِیْمًا) کے بعد اضافہ نقل کیا ہے کہ پھر اپنی حاجت و ضرورت کا تذکرہ کرے ۔ اور شرح السنہ میں ابن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ اس تشہد کو نکاح کے خطبہ حاجت یا کسی دوسرے خطبہ میں پڑھے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی و فی شرح السنہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر وہ خطبہ جس میں تشہد (حمد و ثنا) نہ ہو تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کی طرح ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر اہم کام جس کا آغاز اللہ کی حمد سے نہ کیا جائے وہ (کام) برکت سے خالی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ نکاح کا اعلان کرو اور اسے مسجد میں کرو ، اور اس موقع پر دف بجاؤ ۔‘‘ ترمذی ۔ اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
محمد بن حاطب جمحی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نکاح کے موقع پر (نکاح کی) تشہیر اور دف بجانا (نکاح) حلال اور حرام میں فرق کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میرے پاس انصار کی ایک لڑکی تھی ، میں نے اس کی شادی کر دی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عائشہ ! تم اشعار کا انتظام کیوں نہیں کرتی ، کیونکہ انصار کا یہ قبیلہ اشعار پسند کرتا ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ ابن حبان فی صحیحہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، عائشہ ؓ نے انصار میں سے اپنی ایک عزیزہ کی شادی کی تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا :’’ کیا تم نے لڑکی کو بھیج دیا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم نے اشعار پڑھنے والوں کو اس کے ساتھ بھیجا ہے ؟‘‘ عائشہ ؓ نے عرض کیا : نہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ انصار ایسے لوگ ہیں جو گانے کا رجحان رکھتے ہیں ، اگر تم اس کے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیجتی جو کہتا :
اَتَیْنا کُمْ اَتَیْنَا کُمْ فَحَیَّانَا وَ حَیَّاکُمْ
ہم تمہارے پاس آئے ، ہم تمہارے پاس آئے
ہمیں بھی مبارک ہو اور تمہیں بھی مبارک ہو ‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس عورت کی شادی دو ولی کر دیں تو وہ ان دونوں میں سے پہلے والے کے نکاح میں ہو گی ۔ اور جو شخص دو آدمیوں سے بیع کرے تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و الدارمی ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے ساتھ عورتیں نہیں ہوتی تھیں ، ہم نے عرض کیا : کیا ہم خصی نہ ہو جائیں ؟ آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا ، پھر آپ ﷺ نے ہمیں متعہ کرنے کی رخصت عطا فرمائی ، ہم میں سے کوئی شخص کپڑے کے عوض ایک مدت تک کسی عورت سے نکاح کرتا ، پھر عبداللہ ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اے مومنو ! پاکیزہ چیزوں کو ، جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ، حرام قرار نہ دو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، متعہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا وہ اس طرح کہ آدمی شہر میں جاتا ، اس کی وہاں جان پہچان نہ ہوتی تو وہ وہاں اپنے قیام کے اندازے کے مطابق عورت سے شادی کر لیتا تو وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی اور اس کے لیے کھانا تیار کرتی حتی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :’’ مگر اپنی بیویوں پر یا اپنی لونڈیوں پر ۔‘‘ ابن عباس ؓ نے فرمایا :’’ ان دونوں (بیوی اور لونڈی) کی شرم گاہ کے سوا ہر شرم گاہ حرام ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عامر بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک شادی کے موقع پر قرظہ بن کعب اور ابومسعود انصاری ؓ کے پاس گیا تو دیکھا کہ چھوٹی بچیاں گا رہی تھیں ، میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے ساتھیو اور بدر کے غازیو ! تمہارے پاس یہ ہو رہا ہے ؟ ان دونوں نے فرمایا : اگر تم چاہو تو ہمارے پاس بیٹھ کر سنو اور اگر تم چاہو تو جاؤ ، کیونکہ شادی کے موقع پر گانے کے متعلق ہمیں اجازت دی گئی ہے ۔ صحیح ، رواہ النسائی ۔