مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ صلح حدیبیہ کے سال اپنے ہزار سے چند سینکڑے زیادہ صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے قربانی کے جانوروں کے گلے میں قلادہ ڈالا ، قربانی کا نشان لگایا اور اسی جگہ سے عمرہ کا احرام باندھا ، اور چل پڑے حتی کہ جب آپ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے اتر کر اہل مکہ تک پہنچا جاتا تھا ، وہاں آپ کی سواری آپ کو لے کر بیٹھ گئی ، لوگوں نے ، حل ، حل کہہ کر اٹھانے کی کوشش کی اور کہا کہ قصواء کسی عذر کے بغیر اڑی کر گئی ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ قصواء نے اڑی نہیں کی اور اس کا یہ مزاج بھی نہیں ، لیکن ہاتھیوں کو روکنے والے نے اسے روک لیا ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ اللہ کی حرمات کی تعظیم کرنے کے متعلق مجھ سے جو مطالبہ کریں گے میں وہی تسلیم کر لوں گا ۔‘‘ پھر آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا اور وہ تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی ، آپ اہل مکہ کی گزر گاہ چھوڑ کر حدیبیہ کے آخری کنارے پر اترے جہاں برائے نام پانی تھا ، لوگ وہاں سے تھوڑا تھوڑا پانی حاصل کرنے لگے اور تھوڑی دیر میں انہوں نے سارا پانی اس کنویں سے کھینچ لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکالا ، پھر انہیں حکم فرمایا کہ وہ اسے اس (پانی) میں رکھ دیں ، اللہ کی قسم ! ان کے لیے پانی خوب ابلتا رہا حتی کہ وہ اس جگہ سے آسودہ ہو کر واپس ہوئے ، وہ اسی اثنا میں تھے کہ ہدیل بن ورقاء الخزاعی خزاعہ کے کچھ لوگوں کے ساتھ آیا ، پھر عروہ بن مسعود آپ ﷺ کے پاس آیا ، اور حدیث کو آگے بیان کیا ، کہ سہیل بن عمرو آیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ لکھو یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ۔‘‘ (اس پر) سہیل نے کہا : اگر ہمیں یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو ہم آپ کو بیت اللہ سے کیوں روکتے اور آپ سے قتال کیوں کرتے ؟ بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے ، (اچھا) لکھو ، محمد بن عبداللہ ، پھر سہیل نے کہا : اور اس شرط پر معاہدہ ہے کہ اگر ہماری طرف سے کوئی آدمی ، خواہ وہ آپ کے دین پر ہو ، آپ کے پاس آئے گا ؟ آپ اسے ہمیں لوٹائیں گے ، جب تحریر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا :’’ کھڑے ہو جاؤ ، قربانی کرو ، پھر سر منڈاؤ ۔‘‘ پھر مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ اسے اہل ایمان جب مومن عورتیں ہجرت کر کے آپ کے پاس آئیں .....‘‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا کہ وہ ان (مومن عورتوں) کو (کفار کی طرف) واپس نہ کریں ، اور انہیں حکم فرمایا کہ وہ حق مہر واپس کر دیں ، پھر آپ مدینہ تشریف لے آئے تو قریش کے ابوبصیر ، جو کہ مسلمان تھے ، آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے ، قریش نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے تو آپ ﷺ نے انہیں ان کے حوالے کر دیا ، وہ انہیں لے کر وہاں سے روانہ ہوئے حتی کہ جب وہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور کھجوریں کھانے لگے ، ابوبصیر ؓ نے ان دونوں میں سے ایک سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم ! تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ ہے ، مجھے دکھاؤ میں بھی دیکھوں ، اس شخص نے ان کو (تلوار) دے دی تو انہوں نے اسے ایک ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کر دیا جبکہ دوسرا فرار ہو کر مدینہ پہنچ گیا اور دوڑتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہو گیا نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس شخص نے کوئی خوف زدہ منظر دیکھا ہے ۔‘‘ اور اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور میں قتل کیا ہی جانے والا ہوں ، اتنے میں ابوبصیر بھی آ گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس کی ماں برباد ہو ، اگر ساتھی مل جائے تو یہ لڑائی کی آگ بھڑکا دے گا ۔‘‘ جب انہوں نے سنا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ مجھے ان کے حوالے کر دیں گے ، وہ وہاں سے نکل کر ساحل سمندر پر آ گئے ، راوی بیان کرتے ہیں ، ابوجندل بن سہل ؓ بھی (مکہ سے) بھاگے اور ابوبصیر سے آ ملے ، اب قریش کا جو بھی آدمی اسلام لا کر بھاگتا تو وہ ابوبصیر سے آ ملتا ، حتی کہ ان کی ایک جماعت بن گئی ، اللہ کی قسم ! ان کو ملک شام کے لیے روانہ ہونے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے ، انہیں قتل کرتے اور ان کا مال چھین لیتے ، قریش نے نبی ﷺ کو اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بُلا لیں ۔ اب جو شخص آپ کے پاس آ جائے تو وہ مامون رہے گا ، (اس پر) نبی ﷺ نے انہیں (اپنے پاس) بُلا بھیجا ۔ رواہ البخاری ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے حدیبیہ کے روز مشرکین سے تین شرائط پر صلح کی ، مشرکین میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کیا جائے گا ، اور مسلمانوں کی طرف سے جو اُن کے پاس آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا اور وہ اگلے سال مکہ آئیں گے اور تین دن قیام کریں گے ، اور وہ اپنا اسلحہ تلوار ، کمان وغیرہ چھپا کر (نیام میں بند کر کے) لائیں گے ۔ اتنے میں ابوجندل ؓ اپنی بیڑیوں میں جھکڑے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے انہیں واپس کر دیا ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی ﷺ سے صلح کی تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ شرط عائد کی کہ تمہاری طرف سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے تمہیں واپس نہیں کریں گے ، اور جو شخص ہماری طرف سے تمہارے پاس آئے گا تو تم اسے ہمیں واپس کرو گے ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم (یہ شرط) لکھ دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، جو شخص ہماری طرف سے ان کی طرف جائے گا تو اللہ نے اسے دور کر دیا ، اور جو شخص ان کی طرف سے ہمارے پاس آئے گا تو اللہ اس کے لیے عنقریب کوئی خلاصی کی راہ پیدا فرما دے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ نے خواتین کی بیعت کے بارے میں فرمایا کہ نبی ﷺ اس آیت کے مطابق اس کا امتحان لیا کرتے تھے :’’ اے نبی ! جب مومن عورتیں آپ کے پاس آئیں اور اس بات پر آپ سے بیعت کریں .....‘‘ تو ان میں سے جو اِن شرائط کی پابندی کا اقرار کر لیتی تو آپ ﷺ اسے فرماتے :’’ میں نے تم سے بیعت لے لی ۔‘‘ آپ ان سے بیعت فقط زبانی طور پر لیتے ۔ اللہ کی قسم ! بیعت کرتے وقت آپ کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگا ۔ متفق علیہ ۔
مسور اور مروان سے روایت ہے کہ انہوں نے دس سال لڑائی بند رکھنے کا معاہدہ کیا ، اس عرصہ میں لوگ امن سے رہیں گے ، کسی غلط فہمی کا شکار ہوں گے اور نہ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھائیں گے (جان و مال کا تحفظ ہو گا) ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
صفوان بن سلیم ؒ ، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے بیٹوں کی ایک جماعت سے اور وہ اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں ، اور وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! جس نے کسی ذمی شخص پر ظلم کیا یا اس کی حق تلفی کی یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر جزیہ عائد کیا یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
امیمہ بنت رُقیقہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے خواتین کی جماعت کے ساتھ نبی ﷺ کی بیعت کی تو آپ ﷺ نے ہمیں فرمایا :’’ (میں نے ان امور میں تمہاری بیعت لی) جن کی تم استطاعت اور طاقت رکھتی ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول ہم پر ہماری جانوں سے بھی زیادہ مہربان ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم سے بیعت لیں یعنی ہم سے مصافحہ کریں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سو عورتوں کے لیے میری بات وہی ہے جو ایک عورت کے لیے ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و مالک ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو اہل مکہ نے انکار کر دیا کہ وہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں حتی کہ آپ نے ان سے اس بات پر صلح کی کہ آپ آئندہ سال آئیں گے ، اور وہاں تین روز قیام کریں گے ، جب انہوں نے تحریر میں آپ ﷺ سے یہ لکھوانا چاہا کہ یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ (ﷺ) نے مصالحت کی ، انہوں نے کہا : ہم اس کا اقرار نہیں کرتے ، اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے ، لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں رسول اللہ ہوں اور میں محمدبن عبداللہ ہوں ۔‘‘ پھر آپ نے علی ؓ سے فرمایا :’’ لفظ رسول اللہ مٹا دیں ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! میں آپ (کے نام) کو نہیں مٹاؤں گا ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے قلم ہاتھ میں لیا جبکہ آپ بہتر طور پر نہیں لکھ سکتے تھے ، آپ نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے ہے جب آپ مکہ میں داخل ہوں گے تو تلوار نیام میں رکھیں گے اور مکہ والوں میں سے اگر کوئی آدمی آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر جائیں گے اور اگر آپ کے صحابہ میں سے کوئی قیام کرنا چاہے گا آپ اسے منع نہیں کریں گے ، چنانچہ جب (اگلے سال) وہ (مکہ میں) آئے اور مدت قیام پوری ہو گئی تو وہ لوگ علی ؓ کے پاس آئے اور کہا : اپنے ساتھی سے کہو کہ مدت قیام پوری ہو چکی ہے لہذا یہاں سے چلے جائیں ، نبی ﷺ تشریف لے آئے ۔ متفق علیہ ۔