ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم مسجد میں تھے اسی دوران نبی ﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (میرے ساتھ) یہود کی طرف چلو ۔‘‘ ہم آپ کے ساتھ چلے حتی کہ ہم مدرسہ میں پہنچے تو نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا :’’ جماعت یہود ! اسلام قبول کر لو ، بچ جاؤ گے ، جان لو ! زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں اس سرزمین سے نکال دوں ، تم میں سے جو شخص اپنے مال میں سے کوئی چیز پائے تو وہ اسے بیچ ڈالے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا تو فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے یہودِ خیبر کو ان کے اموال پر برقرار رکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہم تمہیں برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقرار رکھے گا ۔‘‘ اور میں انہیں نکالنے کا ارادہ رکھتا ہوں ، جب عمر ؓ نے انہیں نکالنے کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنی ابو الحقیق سے ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا : امیر المومنین ! کیا آپ ہمیں نکالتے ہیں جبکہ محمد (ﷺ) نے ہمیں (اپنے گھروں میں) برقرار رکھا اور ہمیں اموال پر بھی کام کرنے دیا ۔ (اس پر) عمر ؓ نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو بھول گیا ہوں ، تیری کیا حالت ہو گی جب تجھے خیبر سے نکال دیا جائے گا اور تیری جوان اونٹنی تیرے ساتھ دوڑے گی ۔ اس نے کہا : کہ ابو القاسم (ﷺ) کی طرف سے مذاق تھا ، عمر ؓ نے فرمایا : اللہ کے دشمن ! تم جھوٹ کہہ رہے ہو ، عمر ؓ نے انہیں جلا وطن کر دیا ، اور انہیں ان کے پھلوں کے بدلے ، مال ، اونٹ ، پالان اور رسیاں وغیرہ دیں ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ، فرمایا :’’ مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا ، وفد آئیں تو انہیں ان کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرنا جیسے میں انہیں فراہم کرتا تھا ۔‘‘ ابن عباس ؓ نے فرمایا : آپ ﷺ نے تیسری چیز کے متعلق خاموشی اختیار فرمائی ، یا ابن عباس ؓ نے کہا تیسری بات مجھے یاد نہیں رہی ۔ متفق علیہ ۔
جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، عمر بن خطاب ؓ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے نکال دوں گا حتی کہ میں اس میں صرف مسلمانوں ہی کو رہنے دوں گا ۔‘‘ مسلم ۔ اور ایک روایت میں ہے :’’ اگر میں ان شاء اللہ زندہ رہا تو میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے نکال دوں گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
لَیْسَ فِیْہِ اِلَّا حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسِ ؓ : ((لَا تَکُوْنُ قِبْلَتَانِ)) وَقَدْ مَرَّ فِیْ بَابِ الْجِزْیَۃِ ۔
اس میں ابن عباس ؓ سے مروی ایک ہی حدیث ہے :’’ ایک ریاست میں دو قبیلے (یعنی دو دین) نہیں ہو سکتے ۔‘‘ جو کہ باب الجزیۃ میں گزر چکی ہے ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے یہود و نصاریٰ کو سرزمینِ حجاز سے جلا وطن کر دیا ، اور جب رسول اللہ ﷺ اہل خیبر پر غالب آئے تو آپ نے یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکالنے کا ارادہ فرمایا تھا ، اور جب آپ اس سرزمین پر غالب آئے تھے تو وہ زمین اللہ ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے لیے تھی ، یہود نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ وہ ان کی زمینوں کو چھوڑ دیں تا کہ وہ (یہود) کھیتی باڑی کریں اور پیداوار کا نصف ان کے لیے ہو ، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جتنا عرصہ ہم چاہیں گے تم کو رکھیں گے ۔‘‘ انہیں رکھا گیا حتی کہ عمر ؓ نے اپنی امارت میں انہیں تیماء اور اریحاء کی طرف جلا وطن کر دیا ۔ متفق علیہ ۔