انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ بازار میں تھے کہ کسی آدمی نے کہا : ابوالقاسم ! جب نبی ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا : میں نے تو اسے بلایا تھا ، تب نبی ﷺ نے فرمایا :’’ میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت پر کنیت مت رکھو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت مت رکھو ، کیونکہ مجھے تو قاسم بنایا گیا ہے ، میں تمہارے مابین تقسیم کرتا ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے غلام (بچے یا غلام) کا نام یسار (آسانی) ، رباح (منافع) ، نجیح (کامیاب) اور افلح (فوز و فلاح) مت رکھو ، کیونکہ تم کہو گے : کیا وہ یہاں ہے ؟ وہ نہیں ہو گا تو کہنے والا کہے گا : وہ نہیں ہے ۔‘‘ اور انہیں کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ اپنے غلام کا رباح ، یسار ، افلح اور نافع نام نہ رکھو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ وہ یعلی ، برکہ (برکت) ، افلح ، یسار ، نافع اور اس طرح کے نام رکھنے سے منع فرما دیں ، پھر میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے بعد میں اس سے خاموشی اختیار فرمائی ، پھر آپ ﷺ وفات پا گئے اور اس سے منع نہ فرمایا ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت اللہ کے ہاں اس شخص کا نام سب سے زیادہ قبیح ہو گا جس کا نام شہنشاہ رکھا گیا ہو ۔‘‘ بخاری ۔
اور مسلم کی روایت میں ہے فرمایا :’’ روز قیامت اللہ کے ہاں وہ شخص سب سے زیادہ ناراض کن اور خبیث نام والا ہو گا جس کا نام شہنشاہ رکھا گیا ہو گا حالانکہ شہنشاہ تو صرف اللہ ہی ہے ۔ متفق علیہ ۔
زینب بنت ابی سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میرا نام برہ رکھا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اپنی تعریف خود نہ کیا کرو ، تم میں سے جو نیک ہیں ، اللہ انہیں خوب جانتا ہے اس کا نام زینب رکھو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جویریہ ؓ کا نام برہ تھا ، رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بدل کر جویریہ رکھ دیا ، اور آپ ﷺ ناپسند کرتے تھے کے یوں کہا جائے : وہ برہ کے پاس سے چلے گئے ہیں ۔ رواہ مسلم ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، منذر بن ابی اسید جب پیدا ہوئے تو اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا ، آپ ﷺ نے اسے اپنی ران پر رکھا اور فرمایا :’’ اس کا نام کیا ہے ؟‘‘ اس نے کہا : فلاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ اس کا نام منذر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی یوں نہ کہے : میرے بندے (غلام) میری بندی (لونڈی) ، تم سب اللہ کے بندے اور غلام ہو جبکہ تمہاری سب خواتین اللہ کی لونڈیاں ہیں ، بلکہ تم یوں کہا کرو : میرے لڑکے ، میری لڑکی ، اور غلام بھی یوں نہ کہے : میرے رب ! بلکہ یوں کہے : میرے آقا ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے : وہ یوں کہے : میرے سیّد ، میرے مولا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ غلام اپنے آقا سے میرے مولا نہ کہے ، کیونکہ تمہارا مولا اللہ ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کو ئی شخص یہ نہ کہے : میرا نفس (جی) خبیث ہو گیا بلکہ یوں کہے : میرا نفس بوجھل ہو گیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث :’’ ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے ۔‘‘ باب الایمان میں ذکر ہو چکی ہے ،
شریح بن ہانی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں سنا کہ وہ میرے والد کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلا کر فرمایا :’’ بے شک اللہ ہی حکم ہے اور حکم کا اختیار اسے ہی حاصل ہے ، تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں رکھی گئی ؟‘‘ اس نے کہا : جب میری قوم میں کسی چیز میں اختلاف ہو جاتا تو وہ میرے پاس آتے اور میں ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہوں تو وہ دونوں فریق میرے فیصلے پر راضی ہو جاتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ کتنا اچھا ہے ، تیرے کتنے بچے ہیں ؟‘‘ اس نے کہا : شریح ، مسلم اور عبداللہ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان میں سے بڑا کون ہے ؟‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے کہا : شریح ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ابو شریح ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
مسروق بیان کرتے ہیں ، میں عمر ؓ سے ملا تو انہوں نے فرمایا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : مسروق بن اجدع ، عمر ؓ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اجدع ، شیطان (کا نام) ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت تمہیں تمہارے اور تمہارے آباء کے نام سے پکارا جائے گا ، اپنے نام اچھے رکھو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اپنے نام اور اپنی کنیت کو اس طرح اکٹھا کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھ لے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میرے نام پر نام رکھو تو پھر میری کنیت پر کنیت مت رکھو ۔‘‘ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اور ابوداؤد کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ جس نے میرے نام پر نام رکھا تو وہ میری کنیت نہ رکھے ، اور جس نے میری کنیت پر کنیت رکھی تو وہ میرے نام پر نام نہ رکھے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام محمد اور اس کی کنیت ابوالقاسم رکھی ہے ، لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کون ہے وہ جس نے حلال قرار دیا میرا نام رکھنا اور حرام کیا میری کنیت رکھنا ، یا کون ہے وہ جس نے حرام کیا میری کنیت رکھنا اور حلال کیا میرا نام رکھنا ؟‘‘ ابوداؤد ، اور محی السنہ ؒ نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
محمد بن حنفیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو تو میں آپ کے نام پر اس کا نام اور آپ کی کنیت پر اس کی کنیت رکھ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک بوٹی چنا کرتا تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر میری کنیت (ابوحمزہ) رکھی ۔ اسے ترمذی نے بیان کیا اور فرمایا : اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں ، اور مصابیح میں ہے کہ اس نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
بشیر بن میمون اپنے چچا اسامہ بن اخدری سے روایت کرتے ہیں کہ اصرم نامی ایک آدمی ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘ اس نے کہا : اصرم ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ تم زرعہ ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
اور ابوداؤد نے کہا ، اور نبی ﷺ نے عاص ، عزیز ، عتلہ ، شیطان ، حکم ، غراب ، حباب اور شہاب نام بدل دیے تھے ، اور انہوں نے کہا : میں نے اختصار کی خاطر ان کی اسناد بیان نہیں کیں ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابومسعود انصاری ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے ابو عبداللہ سے یا ابو عبداللہ نے ابو مسعود سے کہا : تم نے لفظ ’’زَعَمُوْا‘‘ (لوگوں کا خیال ہے) کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو کیا فرماتے ہوئے سنا ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا :’’ آدمی کا ایسے انداز میں گفتگو کرنا بُرا ہے ۔‘‘ ابوداؤد ، اور انہوں نے کہا : ابو عبداللہ سے مراد حذیفہ ہیں ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
حذیفہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یوں نہ کہا کرو : جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ، بلکہ یوں کہو : جو اللہ چاہے ، پھر فلاں چاہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
اور ایک منقطع روایت میں ہے ، فرمایا :’’ یوں نہ کہا کرو : جو اللہ چاہے اور جو محمد (ﷺ) چاہے ، بلکہ یوں کہا کرو : کو اکیلا اللہ چاہے ۔‘‘ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔