عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے ایک مربع شکل خط کھینچا اور ایک خط (اس مربع کے) وسط میں اس سے باہر جاتا ہوا کھینچا اور کچھ اس وسط والے خط کے پہلو میں چھوٹے چھوٹے خط اور کھینچے اور فرمایا :’’ یہ انسان ہے اور یہ اس کی اجل (موت) ہے ، جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو باہر کی طرف نکل رہی ہے یہ اس کی امید ہے ، اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط پیش آمدہ حادثات ہیں ، اگر ایک اس سے خطا کر جاتا ہے تو یہ (دوسرا) اسے دبوچ لیتا ہے ، اور اگر یہ اس سے خطا کر جاتا ہے تو یہ اسے دبوچ لیتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے کچھ خط کھینچے تو فرمایا :’’ یہ امید ہے ، اور یہ اس کی موت ہے ، وہ اسی اثنا میں ہوتا ہے تو زیادہ قریب والا خط اچانک اس تک آ پہنچتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بوڑھے شخص کا دل دو چیزوں کے بارے میں جوان ہی رہتا ہے : دنیا کی محبت کے بارے میں اور لمبی خواہشوں کے بارے میں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے اس شخص سے (توبہ نہ کرنے اور نیک عمل نہ کرنے کا) عذر زائل کر دیا جس کی اجل کو مؤخر کیا حتیٰ کہ اسے ساٹھ سال تک پہنچا دیا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر انسان کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری تلاش کرتا ہے ، انسان کے پیٹ کو صرف (قبر کی) مٹی ہی بھرے گی ، اور اللہ توبہ کرنے والے شخص کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے میرے جسم کے کسی حصے کو پکڑ کر فرمایا :’’ دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک پردیسی یا راہ گیر ہو اور اپنے آپ کو اہل قبور (مُردوں) میں سے شمار کرو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے تو میں اور میری والدہ (اپنے مکان کے) کسی حصہ کی لپائی کر رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عبداللہ ! کیا ہو رہا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، ہم (مکان کے کسی) حصہ کی مرمت کر رہے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ معاملہ (موت) اس سے زیادہ تیز ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی پیشاب کرتے تو مٹی سے تیمم کرتے ، میں عرض کرتا ، اللہ کے رسول ! پانی تو آپ کے قریب ہی ہے ، آپ ﷺ فرماتے :’’ مجھے کیا پتہ شاید کہ میں وہاں تک نہ پہنچ سکوں ۔‘‘ شرح السنہ ، اور ابن جوزی نے کتاب ’’الوفاء‘‘ میں اسے روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی کے پاس رکھا ، پھر کھولا تو فرمایا :’’ اور وہاں اس کی آرزوئیں ہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے سامنے ایک لکڑی گاڑی ، ایک اس کے پہلو میں اور ایک اس کے دور گاڑی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ انسان ہے اور یہ اجل ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میرا خیال ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ آرزوئیں ہیں ، وہ آرزوئیں حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے تو اس کی آرزو کے پورا ہونے سے پہلے اسے موت آ جاتی ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کی عمر ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہیں ، اور اس (ساٹھ ، ستر) سے تجاوز کرنے والے ان میں سے کم ہیں ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ۔ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
اور عبداللہ بن شخیر سے مروی حدیث باب عیادۃ المریض میں ذکر ہو چکی ہے ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس امت کی پہلی صلاح (آخرت کا) یقین اور دنیا سے بے رغبتی ہے ، جبکہ اس کا اول فساد بخل اور (لامحدود) آرزوئیں ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
سفیان ثوری ؒ نے فرمایا :’’ موٹا ، جھوٹا کپڑا پہننے اور روکھا سوکھا کھانے کا نام دنیا سے بے رغبتی نہیں ، بلکہ آرزوؤں کا کم ہونا دنیا سے بے رغبتی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
زید بن حسین ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے امام مالک ؒ سے سنا ، ان سے دریافت کیا گیا ، دنیا سے بے رغبتی سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے فرمایا : حلال کمائی اور امیدوں کا کم ہونا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔