جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اپنے رب کو صاف ظاہر طور پر دیکھو گے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے : راوی بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا تو فرمایا :’’ عنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو ، اور اس کو دیکھنے میں تم کوئی تنگی محسوس نہیں کرو گے ، اگر تم اس کی استطاعت رکھو کہ تم طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے کی نمازوں کی ادائیگی میں مغلوب نہ ہو جاؤ تو پھر ان کی ادائیگی ضرور کرو ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ طلوع آفتاب اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
صہیب ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو میں تمہیں مزید عطا فرماؤں ؟ وہ عرض کریں گے : کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں بنا دیے ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرما دیا اور تو نے ہمیں جہنم کی آگ سے نہیں بچا لیا ؟‘‘ فرمایا :’’ حجاب اٹھا لیا جائے گا تو وہ اللہ کے چہرے کا دیدار کریں گے ، انہیں جو کچھ عطا کیا گیا ان میں سے اپنے رب کا دیدار نہیں سب سے زیادہ محبوب ہو گا ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اچھے اعمال کیے ، اچھا ثواب (جنت) ہے اور زیادہ (اللہ تعالیٰ کا دیدار) ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت والوں میں سے سب سے ادنی مقام والا وہ شخص ہو گا جو اپنے باغات ، اپنی ازواج ، اپنی نعمتوں ، اپنے خادموں اور اپنے تختوں کو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا (اس کی نعمتیں ہزار سال کی مسافت پر محیط ہوں گی) اور ان میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہو گا جو صبح و شام اس کے چہرے کا دیدار کرے گا ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اس روز بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
ابورزین عقیلی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا قیامت کے روز ہم سب اللہ کو اکیلے اکیلے دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، کیوں نہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اس کی نشانی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابو رزین ! کیا تم سب چودھویں رات کے چاند کو اکیلے اکیلے نہیں دیکھتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، جی ہاں (دیکھتے ہیں)، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ (چاند) تو اللہ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ اجل و اعظم ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (وہ) نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :’’ اس (رسول) نے جو کچھ دیکھا (آپ کے) دل نے اس میں دھوکہ نہیں کھایا ۔ اور آپ نے اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ۔‘‘ کے بارے میں فرمایا : آپ ﷺ نے اس کو اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا ۔
اور ترمذی کی روایت میں ہے ، فرمایا : محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، عکرمہ ؒ نے فرمایا : کیا اللہ فرماتا نہیں ؟‘‘ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں جبکہ وہ آنکھوں کا ادراک کر سکتا ہے ۔‘‘ فرمایا : تجھ پر افسوس ہے ! یہ تب ہے جب وہ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو کہ اس کا نور ہے ، اور آپ ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے ۔ رواہ مسلم و الترمذی ۔
شعبی ؒ بیان کرتے ہیں ، ابن عباس ؓ ، کعب ؓ کو عرفات کے میدان میں ملے تو ابن عباس ؓ نے ان سے کسی چیز کے متعلق مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے (زور سے) اللہ اکبر کہا حتی کہ پہاڑوں نے انہیں جواب دیا ، ابن عباس ؓ نے فرمایا : ہم بنو ہاشم ہیں ، کعب ؓ نے فرمایا : اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسی ؑ کے درمیان تقسیم فرمایا ہے ، موسی ؑ نے دو مرتبہ کلام کیا ہے جبکہ محمد ﷺ نے اسے دو مرتبہ دیکھا ہے ۔ مسروق ؒ بیان کرتے ہیں میں عائشہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے پوچھا کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : تم نے ایسی چیز کے متعلق بات کی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں ، میں نے عرض کیا : ذرا سکون فرمائیں ، پھر میں نے یہ آیت تلاوت کی :’’ اس (رسول ﷺ) نے اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں ۔‘‘ انہوں نے فرمایا : یہ (آیت) تمہیں کدھر لے جا رہی ہے ؟ اس سے مراد تو جبریل ؑ ہیں ، جو شخص تمہیں یہ بتائے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ یا جس کے متعلق آپ ﷺ کو (بیان کرنے کا) حکم دیا گیا تھا تو آپ نے اس میں سے کوئی چیز چھپا لی ؟ یا آپ وہ پانچ چیزیں جانتے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ، اور وہی بارش برساتا ہے ۔‘‘ اور یہ (کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے) تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہے ، لیکن آپ ﷺ نے جبریل ؑ کو دیکھا ہے اور آپ نے انہیں ان کی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ ہی دیکھا ہے ، ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک مرتبہ اجیاد (مکہ کے نشیبی علاقے) کے پاس ، اس کے چھ سو پر ہیں ۔ اور اس نے افق کو بھر دیا تھا ۔
امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے کچھ اضافے اور کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ، ان کی روایت میں ہے ، مسروق ؒ نے کہا : میں نے عائشہ ؓ سے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :’’ پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا ، تو کمان کا یا اس سے بھی کم فرق رہ گیا ۔‘‘ کا کیا معنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : وہ (جبریل ؑ) آدمی کی صورت میں آپ ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے ، اور اس مرتبہ وہ اپنی اس صورت میں آئے تھے جو کہ ان کی اصل صورت ہے ، تو افق بھر گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و اصل الحدیث عند البخاری و مسلم ۔
ابن مسعود ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان :’’ تو کمان یا اس سے بھی کم فرق رہ گیا ۔‘‘ اور ’’ آپ ﷺ نے جو کچھ دیکھا ، دل نے اس میں دھوکہ نہیں کھایا ‘‘ اور ’’ اور آپ ﷺ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔‘‘ کے بارے میں فرمایا : ان تمام صورتوں میں آپ ﷺ نے جبریل ؑ کو دیکھا ہے ، ان کے چھ سو پر تھے ۔ متفق علیہ ۔
اور ترمذی کی روایت میں ہے :’’ آپ نے جو دیکھا ، دل نے اس میں دھوکہ نہیں کھایا ۔‘‘ کے بارے میں فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کو سبز جوڑے میں دیکھا ، اس نے زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو پُر کر رکھا تھا ، اور ترمذی اور صحیح بخاری کی ، اللہ تعالیٰ کے فرمان :’’ آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔‘‘ روایت میں ہے ، فرمایا : آپ ﷺ نے سبز لباس والے کو دیکھا اس نے افق بھر دیا تھا ۔ و الترمذی و قال : حسن صحیح ۔
اور مالک بن انس ؒ سے ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :’’ وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ۔‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا ، نیز انہیں بتایا گیا کہ کچھ لوگ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ رب تعالیٰ کے ثواب کو دیکھنے والے ہوں گے ، امام مالک ؒ نے فرمایا : انہوں نے جھوٹ کہا ہے ، (اگر ایسے ہے) تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :’’ ہرگز نہیں ، بے شک وہ اس روز اپنے رب کے دیدار سے روک دیے جائیں گے ۔‘‘ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ امام مالک ؒ نے فرمایا : لوگ روز قیامت اپنی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کریں گے اور فرمایا : اگر مومن قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار نہیں کریں گے تو پھر اللہ کافروں کو دیدار سے محرومی کی عار نہ دلاتا ، فرمایا :’’ ہرگز نہیں ، بے شک وہ (کافر لوگ) اس روز اپنے رب کے دیدار سے روک دیے جائیں گے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
جابر ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس اثنا میں کہ جنت والے اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ اچانک ان کے لیے ایک نور چمکے گا ، وہ اپنے سر اٹھائیں گے تو اچانک ان کے اوپر سے رب تعالیٰ نے ان پر تجلی فرمائی ہو گی ، وہ فرمائے گا : جنت والو ! السلام علیکم !‘‘ فرمایا :’’ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان ہے :’’ مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اس کی طرف دیکھیں گے ، جب تک وہ اس کی طرف دیکھتے رہیں گے وہ کسی اور نعمت کی طرف توجہ نہیں کریں گے حتی کہ وہ ان سے حجاب کر لے گا اور اس کا نور باقی رہ جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔