انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرائیل ؑ تشریف لائے ، آپ اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، انہوں نے آپ کو پکڑ کر لٹایا ، آپ کا سینہ چاک کر کے دل سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا : یہ آپ کے (جسم میں) شیطان کا حصہ تھا ، پھر اس (دل) کو سونے کی ایک طشت میں (رکھ کر) آب زم زم سے دھویا اور پھر اسے جوڑ کر اس کی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا ، یہ (ماجرہ دیکھ کر) بچے دوڑ کر آپ کی والدہ یعنی آپ کی دایہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : محمد (ﷺ) کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ وہ فوراً آپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ آپ کا رنگ تبدیل ہو چکا تھا ، انس ؓ نے فرمایا ، میں نے سلائی کا نشان آپ ﷺ کے سینہ مبارک پر دیکھا تھا ۔ رواہ مسلم ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں مکہ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو کہ میری بعثت سے قبل مجھے سلام کیا کرتا تھا ، اور میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، مکہ والوں نے رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں ، تو آپ ﷺ نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دکھایا ، حتی کہ انہوں نے حرا کو ان دو ٹکڑوں کے درمیان دیکھا ۔ متفق علیہ ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دور میں چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے ، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور ایک ٹکڑا اس کے نیچے (گرا) تھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (میری نبوت کی) گواہی دو ۔‘‘ (دوسرا معنی) :’’ (معجزہ) دیکھ لو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوجہل نے کہا : کیا محمد (ﷺ) تمہارے سامنے اپنا چہرہ خاک آلود (یعنی سجدہ) کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : لات و عزی کی قسم ! اگر میں نے اسے ایسے کرتے ہوئے دیکھا تو میں اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھوں گا ، رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور نماز شروع کر دی ابوجہل نے اس دوران آپ کی گردن پر پاؤں رکھنے کا ارادہ کیا ، وہ آپ ﷺ پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن وہ فوراً الٹے پاؤں دوڑا اور خود کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بچانے لگا ، اس سے پوچھا گیا ، تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا : میرے اور اس (محمد ﷺ) کے درمیان آگ کی خندق ، ہیبت اور (فرشتوں کے) پر ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر وہ میرے قریب آ جاتا تو فرشتے اسے اچک لیتے اور اس کا جوڑ جوڑ توڑ دیتے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو اس نے فاقے کی شکایت کی ، پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے رہزنی کی شکایت کی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عدی ! کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے ؟ اگر تیری عمر دراز ہوئی تو تم دیکھو گے عورت حیرہ (کوفے کے پاس ایک بستی) سے ہودج میں سوار ہو کر آئے گی اور وہ کعبہ کا طواف کرے گی ، اسے اس دوران اللہ کے سوا کسی کا ڈر خوف نہیں ہو گا ۔ اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم پر کسریٰ کے خزانے کھول دیے جائیں گے ، اور اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو تم دیکھو گے کہ آدمی ہاتھ میں سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کر لے لیکن اسے ایسا کوئی آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے ، اور تم میں سے ہر ایک قیامت کے دن اللہ سے ملاقات کرے گا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا جو کہ اس کی ترجمانی کر سکے ، وہ فرمائے گا : کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجے تھے کہ وہ تیری طرف میرا پیغام پہنچائے ؟ وہ شخص کہے گا ، کیوں نہیں ضرور آئے تھے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا اور میں نے تجھے فضیلت عطا نہیں کی تھی ؟ وہ عرض کرے گا : کیوں نہیں ، ضرور عطا کی تھی ، وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، پھر وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ۔ جہنم سے بچ جاؤ ، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو ، چنانچہ جو شخص یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کے ذریعے (آگ سے بچ جائے) ۔‘‘ عدی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے ہودج میں سوار عورت کو دیکھا کہ وہ حیرہ سے آئی اور اس نے کعبہ کا طواف کیا ، اور اسے اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر خوف نہیں تھا ، اور جن کے لیے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے کھولے گئے میں بھی ان میں موجود تھا ، اور اگر تمہاری عمر دراز ہوئی تو تم وہ کچھ ضرور دیکھو گے ، جس کی ابوالقاسم ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ’’ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا اور چاندی لے کر نکلے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
خباب بن ارت ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے نبی ﷺ سے (کفار کی ایذا رسانی کی) شکایت کی ، آپ اس وقت کعبہ کے سائے میں دھاری دار چادر کا سرہانہ بنائے تشریف فرما تھے ، ہمیں مشرکین سے بہت تکلیف پہنچ چکی تھی ، ہم نے عرض کیا ، کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرماتے ؟ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے کہ ان میں سے کسی کے لیے زمین میں گڑھا کھود دیا جاتا اور پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ دیا جاتا ، اور اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے ، یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے نہیں روکتی تھی ۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت ہڈیوں اور پٹھوں میں دھنسا دیے جاتے اور یہ چیز بھی انہیں ان کے دین سے نہیں روکتی تھی ، اللہ کی قسم ! یہ دین مکمل ہو گا حتی کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اور اسے صرف اللہ ہی کا خوف ہو گا ، اور اسے اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف بھی نہیں ہو گا ، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ ، عبادہ بن صامت ؓ کی اہلیہ ام حرام بنت ملحان ؓ کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ، ایک روز آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا ، پھر بیٹھ کر آپ کے سر مبارک سے جوئیں دیکھنے لگیں ، رسول اللہ ﷺ سو گئے پھر (جب) اٹھے تو آپ ہنس رہے تھے ، وہ بیان کرتی ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت سے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مجھے دکھائے گئے ، وہ اس سمندر میں سوار اس طرح جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں یا وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان تھے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی انہی میں سے کر دے ، آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی ، پھر آپ اپنا سر رکھ کر سو گئے ، پھر بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مجھے دکھائے گئے ۔‘‘ جیسا کہ آپ ﷺ نے پہلی بار فرمایا تھا ۔ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں سے کر دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آپ اولین میں سے ہیں ۔‘‘ ام حرام ؓ نے معاویہ ؓ کے دور میں بحری سفر کیا ، جب وہ سمندر سے باہر نکلیں تو وہ اپنی سواری سے گر کر وفات پا گئیں ۔ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ضماد مکہ آیا اور وہ قبیلہ ازدشنوءہ سے تھا ، اور وہ آسیب وغیرہ کا منتر جانتا تھا اس نے مکے کے نادانوں سے سنا کہ محمد (ﷺ) مجنون ہیں ، اس نے کہا : اگر میں اس آدمی کو دیکھوں (اور اس کا علاج کروں) تو شاید اللہ میرے ہاتھوں اسے شفا عطا فرما دے ، راوی بیان کرتے ہیں ، وہ آپ ﷺ سے ملا اور اس نے کہا : محمد ! میں آسیب وغیرہ کا منتر جانتا ہوں کیا آپ کو علاج کی رغبت ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((إن الحمد للہ ..... عبدہ و رسولہ)) ’’ بے شک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ، جس کو اللہ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، جس کو وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ اما بعد ! اس نے عرض کیا ، یہی کلمات مجھے دوبارہ سنائیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ یہ کلمات اسے سنائے ، تو اس نے عرض کیا ، میں نے کاہنوں ساحروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے ، لیکن میں نے آپ کے کلمات جیسا کوئی کلام نہیں سنا ، یہ تو انتہائی فصیح و بلیغ کلمات ہیں ، اپنا دست مبارک لائیں ، میں اسلام پر آپ ﷺ کی بیعت کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے ان سے بیعت لی ۔ رواہ مسلم ۔
مصابیح کے بعض نسخوں میں ((ناعوس البحر)) کے الفاظ ہیں ، اور ابوہریرہ ؓ اور جابر بن سمرہ ؓ سے مروی حدیث : ((یھلک الکسریٰ)) اور دوسری : ((لتفتحن عصابۃ)) باب الملاحم میں ذکر کی گئی ہے ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوسفیان بن حرب ؓ نے بلا واسطہ حدیث بیان کی ، انہوں نے فرمایا : میں نے اس مدت کے دوران جو کہ میرے اور آپ (ﷺ) کے درمیان (صلح حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا ، سفر کیا ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں اس وقت شام ہی میں تھا جب نبی ﷺ کا خط ہرقل کو موصول ہوا ، اور انہوں نے فرمایا : دحیہ کلبی یہ خط لے کر آئے تھے ، انہوں نے اسے امیر بصری کو دیا اور اس نے اسے ہرقل کے حوالے کیا ، ہرقل نے کہا : کیا اس شخص کی قوم کا کوئی فرد یہاں موجود ہے جو خود کو اللہ کا رسول خیال کرتا ہے انہوں نے کہا : جی ہاں ، مجھے بلایا گیا ، میرے ساتھ کچھ قریشی بھی تھے ، ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو ہمیں اس کے سامنے بٹھا دیا گیا ، اس نے پوچھا : یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے ، آپ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار کون ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں ، میں نے کہا : میں ، انہوں نے مجھے اس کے سامنے بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا ، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا ، اور کہا : ان سے کہہ دو کہ میں اس (ابوسفیان) سے اس شخص کے متعلق ، جو چند سوالات کروں گا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اسے جھٹلا دینا ، ابوسفیان بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ ﷺ کے متعلق ضرور جھوٹ بولتا ، پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : اس سے پوچھو ، اس کا حسب و نسب کیسا ہے ؟ وہ کہتے ہیں میں نے کہا ، وہ ہم میں نہایت عمدہ حسب و نسب والے ہیں ، اس نے کہا : کیا ان کے آباو اجداد میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، اس نے کہا : کیا اس نے تم سے اس بات سے پہلے جو اب وہ کہتا ہے کوئی ایسی بات کہی جس پر تم نے اسے جھوٹا کہا ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ، اس نے کہا : اس کے پیروکار کون ہیں ، بڑے لوگ یا کمزور لوگ ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : بلکہ کمزور لوگ ، اس نے کہا : کیا وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : نہیں ، بلکہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں ، اس نے کہا : کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اسے برا خیال کر کے اس سے منحرف ہوا ہے ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : نہیں ، اس نے پوچھا : کیا تم نے اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی ؟ وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : جنگ ہم دونوں کے درمیان برابر ہے ، کبھی اسے ہماری طرف سے زک پہنچتی ہے اور کبھی ہمیں اس کی طرف سے زک پہنچتی ہے ، اس نے کہا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، البتہ ہم اس وقت اس کے ساتھ صلح کی مدت گزار رہے ہیں ، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرے گا ۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! اس جملے کے علاوہ مجھے اور کہیں کوئی بات داخل کرنے کا موقع نہ ملا ، اس نے پوچھا : کیا یہ بات اس سے پہلے بھی کسی نے کی تھی ؟ میں نے کہا : نہیں ، پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : اسے کہو ، میں نے تجھ سے اس کے حسب و نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے کہا : وہ تم میں سب سے زیادہ عمدہ حسب و نسب والا ہے ، اور رسول ایسے ہی ہوتے ہیں ، انہیں ان کی قوم کے اونچے حسب و نسب میں مبعوث کیا جاتا ہے ، میں نے تجھ سے سوال کیا ، کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ تھا ؟ تو نے کہا : نہیں ، اگر اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوتا تو میں خیال کرتا کہ وہ اپنے آبا کی بادشاہت کا طلب گار ہے ، میں نے تجھ سے اس کے متبعین کے متعلق پوچھا : کیا وہ ضعیف لوگ ہیں یا بڑے لوگ ہیں ، تو نے کہا : بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں ، اور رسولوں کے پیروکار ایسے ہی ہوتے ہیں ، میں نے تجھ سے پوچھا : کیا اس نے جو بات کی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے ، تو نے کہا : نہیں ، میں نے پہچان لیا کہ اگر وہ لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا تو پھر وہ اللہ پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے ؟ میں نے تجھ سے سوال کیا : کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اسے برا خیال کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے ؟ تو نے کہا : نہیں ، اور ایمان کی یہی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کی بشاشت (فرحت و لذت) دلوں میں راسخ ہو جاتی ہے تو پھر وہ نکلتا نہیں ، میں نے تجھ سے دریافت کیا : کیا وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ؟ تو نے کہا ، وہ زیادہ ہو رہے ہیں ، اور ایمان اسی طرح ہوتا ہے حتی کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے ، میں نے تجھ سے پوچھا : کیا تم نے اس سے جنگ کی ہے ؟ تو نے بتایا کہ تم نے اس سے جنگ کی ہے اور جنگ تمہارے درمیان برابر رہی ، رسولوں کا معاملہ اسی طرح ہوتا ہے کہ ان پر دور ابتلا آتا ہے اور انجام بخیر انہی کا ہوتا ہے ، میں نے تجھ سے پوچھا : کیا وہ بد عہدی کرتا ہے ؟ تو نے کہا : نہیں ، اور رسولوں کی یہی شان ہے ؟ وہ بد عہدی نہیں کرتے ، میں نے تجھ سے سوال کیا : کیا ایسی بات اس سے پہلے بھی کسی نے کی ہے ؟ تو نے کہا : نہیں ، اگر اس سے پہلے ایسی بات کسی نے کی ہوتی تو میں خیال کرتا کہ یہ آدمی ویسی ہی بات کر رہا ہے جو اس سے پہلے کی گئی ہے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، پھر اس نے پوچھا : وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے ؟ ہم نے کہا : وہ ہمیں نماز پڑھنے ، زکوۃ دینے ، صلہ رحمی کرنے اور پاک دامنی کا حکم دیتا ہے ، اس نے کہا : تم نے جو کچھ کہا ہے اگر تو وہ صحیح ہے تو پھر وہ نبی ہیں ، مجھے یہ تو پتہ تھا کہ ان کا ظہور ہونے والا ہے ، لیکن میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے ، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے شرف ملاقات حاصل کرنا پسند کرتا ، اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا ، اور ان کی بادشاہت میرے ان دونوں قدموں کی جگہ تک پہنچ جائے گی ، پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط مبارک منگا کر پڑھا ۔ متفق علیہ ۔
اور یہ مکمل حدیث باب الکتاب الی الکفار میں گزر چکی ہے ۔