ابوالعلاء ، سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک برتن سے دن بھر باری باری تناول کرتے رہے ، وہ اس طرح کہ دس کھا جاتے اور دس آ جاتے ۔ ہم نے کہا : کہاں سے بڑھایا جا رہا تھا ؟ انہوں (سمرہ ؓ) نے فرمایا : تم کس چیز سے تعجب کرتے ہو ؟ اس میں اضافہ تو اس طرف سے ہو رہا تھا ، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے روز تین سو پندرہ صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! یہ ننگے پاؤں ہیں تو انہیں سواری عطا فرما ، اے اللہ ! یہ ننگے بدن ہیں تو انہیں لباس عطا فرما ، اے اللہ ! یہ بھوک کا شکار ہیں تو انہیں شکم سیر فرما ۔‘‘ اللہ نے آپ ﷺ کو فتح عطا فرمائی ، آپ واپس آئے تو ان میں سے ہر آدمی کے پاس ایک یا دو اونٹ تھے ، ان کے پاس لباس بھی تھا اور وہ شکم سیر بھی تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن مسعود ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہاری (دشمن کے خلاف) مدد کی جائے گی ، تم مال غنیمت حاصل کرو گے ، تم (بہت سے ملک) فتح کرو گے ، تم میں سے جو شخص یہ مذکورہ چیزیں پا لے تو وہ اللہ سے ڈرے ، نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ اہل خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملا دی ، پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیج دیا ، رسول اللہ ﷺ نے دستی لی اور اس سے کھایا ، اور آپ کے چند صحابہ کرام ؓ نے بھی آپ کے ساتھ کھایا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے ہاتھ (کھانے سے) اٹھا لو ۔‘‘ آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا :’’ کیا تو نے اس بکری میں زہر ملائی تھی ؟‘‘ اس نے کہا : آپ کو کس نے بتایا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے ہاتھ میں یہ جو دستی ہے اس نے مجھے بتایا ہے ۔‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ، میں نے کہا : اگر تو وہ سچے نبی ہوئے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گی ، اور اگر وہ سچے نبی نہ ہوئے تو ہم اس سے آرام پا جائیں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو معاف فرما دیا اور اسے سزا نہ دی ، اور آپ کے جن صحابہ کرام نے بکری کا گوشت کھایا تھا وہ فوت ہو گئے ، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کا گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے کندھوں کے درمیان پچھنے لگوائے ، ابوہند جو کہ انصار قبیلے بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے ، انہوں نے سینگ اور چھری کے ساتھ آپ ﷺ کے پچھنے لگائے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و الدارمی ۔
سہل بن حنظلیہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا ، انہوں نے سفر جاری رکھا حتیٰ کہ پچھلا پہر ہو گیا ، ایک گھڑ سوار آیا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں فلاں فلاں پہاڑ کے اوپر چڑھا ہوں اور میں نے اچانک ہوازن قبیلے کو دیکھا ہے کہ وہ سب کے سب اپنے مویشیوں اور اپنے اموال کے ساتھ حنین کی طرف اکٹھے ہو رہے ہیں ، اس پر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا :’’ ان شاء اللہ تعالیٰ کل وہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہو گا ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا ؟‘‘ انس بن ابی مرثد الغنوی ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سوار ہو جاؤ ۔‘‘ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس گھاٹی کی طرف جاؤ حتیٰ کہ تم اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ ۔‘‘ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اپنی جائے نماز پر تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز ادا کی ، پھر فرمایا :’’ کیا تم نے اپنے گھڑ سوار کو محسوس کیا ؟‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے محسوس نہیں کیا ، نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ دوران نماز اس گھاٹی کی طرف التفات فرماتے رہے حتیٰ کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا :’’ خوش ہو جاؤ ، تمہارا گھڑ سوار آ گیا ہے ۔‘‘ ہم بھی درختوں کے درمیان اس گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے تو وہ اچانک آ گیا حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تو اس نے عرض کیا ، میں چلتا گیا حتیٰ کہ میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اس گھاٹی کے بلند ترین حصے پر تھا ، جب صبح ہوئی تو میں ان دونوں گھاٹیوں کے اطراف سے ہو آیا ہوں ، لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا :’’ کیا رات کے وقت تم (اپنے گھوڑے سے) نیچے اترے تھے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نماز پڑھنے یا قضائے حاجت کے علاوہ میں نہیں اترا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم اس (رات) کے بعد کوئی بھی نیک عمل نہ کرو تو تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں کچھ کھجوریں لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ان میں برکت کے لیے دعا فرمائیں ، آپ ﷺ نے انہیں اکٹھا کیا پھر میرے لیے ان میں برکت کی دعا فرمائی ، اور فرمایا :’’ انہیں لے لو اور انہیں اپنے توشہ دان میں رکھ لو ، جب بھی تم ان میں سے کچھ لینا چاہو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لینا اور انہیں مکمل طور پر باہر نہ نکالنا ۔‘‘ میں نے ان میں سے اتنے اتنے وسق کھجور اللہ کی راہ میں عطا کیے ، ہم خود بھی اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ، اور وہ میری کمر سے الگ نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ عثمان ؓ کی شہادت کے روز وہ منقطع ہو کر گر پڑا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، قریش نے ایک رات مکہ میں (دار الندوہ میں) مشورہ کیا تو ان میں سے کسی نے کہا جب صبح ہو تو اس کو قید کر دو ، ان کی مراد نبی ﷺ تھے ، کسی نے کہا : نہیں ، بلکہ اسے قتل کر دو ، اور کسی نے کہا ، نہیں بلکہ اسے (مکہ سے) نکال باہر کرو ، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو اس (منصوبے) پر مطلع کر دیا ، اس رات علی ؓ نے نبی ﷺ کے بستر پر رات بسر کی اور نبی ﷺ وہاں سے چل دیئے حتیٰ کہ آپ غار میں پہنچ گئے ، جبکہ مشرکین پوری رات علی ؓ پر پہرہ دیتے رہے اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ نبی ﷺ ہیں ۔ جب صبح ہوئی تو وہ ان پر حملہ آور ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو علی ؓ ہیں ، اللہ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا ، انہوں نے پوچھا : تمہارا ساتھی کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا : میں نہیں جانتا ۔ انہوں نے آپ ﷺ کے قدموں کے نشانات کا کھوج لگایا ، جب وہ پہاڑ پر پہنچے تو ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ، وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور غار کے پاس سے گزرے ، انہوں نے اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھا ، اور انہوں نے کہا : اگر وہ اس میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا ، آپ ﷺ نے وہاں تین روز قیام فرمایا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہاں جتنے یہودی موجود ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو ۔‘‘ چنانچہ وہ سب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنے لگا ہوں کیا تم اس کے متعلق مجھے سچ سچ بتاؤ گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ! ابوالقاسم ! رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا :’’ تمہارا باپ کون تھے ؟‘‘ انہوں نے بتایا : فلاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم جھوٹ بولتے ہو ، بلکہ تمہارا باپ تو فلاں ہے ۔‘‘ انہوں نے کہا : آپ نے سچ فرمایا اور اچھا کیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر میں تم سے کسی چیز کے متعلق دریافت کروں تو تم مجھے سچ سچ بتاؤ گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ، ابوالقاسم ! اگر ہم نے آپ سے جھوٹ بولا تو آپ سمجھ جائیں گے جس طرح آپ نے ہمارے باپ کے بارے میں (ہمارا جھوٹ) جان لیا تھا ۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :’’ جہنمی کون ہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا : کچھ مدت کے لیے ہم اس میں جائیں گے ، پھر ہماری جگہ تم وہاں آ جاؤ گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ہی اس میں ذلیل ہو کر رہو گے ، کیونکہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تم سے ایک چیز کے بارے میں سوال کرتا ہوں کیا تم مجھے سچ سچ جواب دو گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ، ابوالقاسم ! آپ ﷺ نے پوچھا :’’ کیا تم نے اس بکری (کے گوشت) میں زہر ملایا ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہم نے اس لیے کیا کہ اگر آپ جھوٹے ہوئے تو ہمیں آپ سے آرام مل جائے گا اور اگر آپ سچے ہوئے تو آپ کو نقصان نہیں پہنچے گا ۔ رواہ البخاری ۔
عمر بن اخطب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف لے گئے ، ہمیں خطاب فرمایا حتیٰ کہ ظہر کا وقت ہو گیا پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتیٰ کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا ، پھر آپ نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی ، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور (خطاب فرمایا) حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا آپ نے قیامت تک ہونے والے واقعات کے متعلق ہمیں بیان فرمایا ، راوی بیان کرتے ہیں ، ہم میں سے زیادہ عالم وہ ہے جو اس خطبے کو ہم میں سے زیادہ یاد رکھنے والا ہے ۔ رواہ مسلم ۔
معن بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے مسروق سے دریافت کیا جس رات جنوں نے قرآن سنا تھا اس کی خبر نبی ﷺ کو کس نے دی تھی ؟ انہوں نے بتایا : مجھے تمہارے والد یعنی عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ ان کے متعلق ایک درخت نے اطلاع دی تھی ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم عمر ؓ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے ، ہم نے چاند دیکھنے کا اہتمام کیا ، میری نظر تیز تھی ، لہذا میں نے اسے دیکھ لیا ، اور میرے سوا کسی نے نہ کہا کہ اس نے اسے دیکھا ہے ، میں عمر ؓ سے کہنے لگا : کیا آپ اسے دیکھ نہیں رہے ؟ وہ اسے نہیں دیکھ پا رہے تھے ، راوی بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ فرمانے لگے ، میں عنقریب اسے دیکھ لوں گا ۔ میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا ، پھر انہوں نے اہل بدر کے متعلق ہمیں بتانا شروع کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے موقع پر کفار کے قتل گاہوں کے متعلق ایک روز پہلے ہی بتا رہے تھے :’’ کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا ، اور کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا ۔‘‘ عمر ؓ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! رسول اللہ ﷺ نے جس جس جگہ کی نشان دہی فرمائی تھی اس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا (وہ وہیں وہیں قتل ہوئے تھے) راوی بیان کرتے ہیں ، ان سب کو ایک دوسرے پر کنویں میں ڈال دیا گیا پھر رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لائے اور فرمایا :’’ اے فلاں بن فلاں ! ، اے فلاں بن فلاں ! اللہ اور اس کے رسول نے تم سے جو وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے اسے سچا پایا ، کیونکہ اللہ نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا میں نے تو اسے سچا پایا ہے ؟‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ بے روح جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں ان سے جو کہہ رہا ہوں وہ اسے تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن وہ مجھے کسی چیز کا جواب نہیں دے سکتے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
اُنیسہ بنت زید بن ارقم اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ زید کی بیماری میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہاری بیماری خطرناک نہیں ، لیکن تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب میرے بعد تمہاری عمر دراز ہو گی اور تم اندھے ہو جاؤ گے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میں ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کروں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تب تم بغیر حساب جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔‘‘ راویہ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ کی وفات کے بعد وہ نابینا ہو گئے پھر اللہ نے انہیں بصارت عطا فرمائی اور پھر انہوں نے وفات پائی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے میرے ذمے ایسی بات لگائی جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔‘‘ اور آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ نے کسی آدمی کو (کہیں) بھیجا تو اس نے آپ پر جھوٹ بولا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے بددعا فرمائی ، اسے مردہ پایا گیا ، اس کا پیٹ چاک ہو چکا تھا اور زمین نے اسے قبول نہیں کیا ۔ دونوں احادیث کو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ ﷺ سے کھانا طلب کیا ، آپ نے اسے ایک وسق جو دیئے ، وہ آدمی ، اس کی بیوی اور ان کا مہمان اس سے کھاتے رہے لیکن جب اس شخص نے وہ ناپ لئے تو وہ ختم ہو گئے ، وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم اسے نہ ناپتے تو تم اس سے کھاتے رہتے اور وہ تمہارے لیے ہمیشہ رہتا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عاصم بن کلیب اپنے والد سے اور وہ انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم ایک جنازہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک قبر پر گورکن کو ہدایات دیتے ہوئے سنا :’’ اس کے پاؤں کی جانب سے کھلی کرو ، اس کے سر کی جانب سے کھلی کرو ۔‘‘ جب آپ واپس آئے تو اس (میت) کی عورت کی طرف سے دعوت کا پیغام دینے والا آپ کو ملا تو آپ نے دعوت قبول فرمائی اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ، کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا ، پھر لوگوں نے (ہاتھ) بڑھایا ، انہوں نے کھانا کھایا ، ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے منہ میں لقمہ چباتے ہوئے فرمایا :’’ میں ایک ایسی بکری کا گوشت پاتا ہوں جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر حاصل کی گئی ہے ۔‘‘ اس عورت نے اپنے وضاحتی پیغام میں عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے نقیع کی طرف ، جو کہ بکریوں کی خرید و فروخت کا مرکز ہے ، آدمی بھیجا تھا تا کہ وہ میرے لیے ایک بکری خرید لائے ، لیکن وہاں نہ ملی تو میں نے اپنے پڑوسی کی طرف بھیجا ، اس نے ایک بکری خریدی ہوئی تھی ، کہ وہ اس کی قیمت کے عوض اسے میری طرف بھیج دے ، لیکن وہ (پڑوسی) نہ ملا تو میں نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے اسے میری طرف بھیج دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
حزام بن ہشام اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا حبیش بن خالد ، جو کہ ام معبد کے بھائی ہیں ، سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ سے نکالا گیا تو آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف مہاجر کی حیثیت سے روانہ ہوئے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر اور ابوبکر کے آزاد کردہ غلام عمار بن فہیرہ تھے اور ان کی راہنمائی کرنے والے عبداللہ اللیشی تھے ، وہ ام معبد کے دو خیموں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اس سے گوشت اور کھجور کے متعلق دریافت کیا تا کہ وہ اس سے خرید لیں ۔ لیکن انہیں اس کے ہاں کوئی چیز نہ ملی ، جبکہ ان کے پاس زادِراہ نہیں تھا اور وہ قحط سالی کا شکار ہو چکے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے خیمے کے ایک کونے میں ایک بکری دیکھی تو فرمایا :’’ ام معبد ! یہ بکری کیسی ہے ؟‘‘ اس نے بتایا کہ یہ لاغر پن کی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ نہیں جا سکتی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : یہ اس لائق نہیں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دھو لوں ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، میرے والدین قربان ہوں ، اگر آپ اس میں دودھ دیکھتے ہیں تو ضرور دھو لیں ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے طلب فرمایا ، اس کے تھن کو اپنا دست مبارک لگایا ، اللہ تعالیٰ کا نام لیا ، ام معبد کے لیے اس بکری کے بارے میں دعائے خیر فرمائی ، اس نے پاؤں کھول دیئے ، دودھ چھوڑ دیا ، اور وہ جگالی کرنے لگی ، آپ نے ایک برتن منگایا جو ایک جماعت کو آسودہ کر سکتا تھا ، اس میں دودھ دھویا اور اتنا دھویا کہ اس پر جھاگ آ گیا ، پھر آپ نے ام معبد کو پلایا حتیٰ کہ وہ خوب سیراب ہو گئی ، پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا حتیٰ کہ وہ سیراب ہو گئے ، پھر آپ نے ان سب کے آخر پر خود پیا ، پھر آپ نے اس برتن میں دوسری مرتبہ دودھ دھویا حتیٰ کہ برتن بھر گیا ، اس (دودھ) کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا ، پھر آپ نے اس سے اسلام پر بیعت لی پھر سب اس کے پاس سے کوچ کر گئے ۔ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
شرح السنہ ، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اور ابن الجوزی نے اسے کتاب الوفاء میں روایت کیا ہے ، اور حدیث میں طویل قصہ ہے ۔