ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ میرا بیٹا فوت ہو گیا تو میں نے اس پر بہت غم کیا ، کیا آپ نے اپنے خلیل صلوات اللہ علیہ و سلامہ سے کوئی ایسی چیز سنی ہے جس سے ہم اپنے فوت شدگان کے بارے میں اپنے دلوں کو خوش کر لیں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان کے چھوٹے بچے جنت کے کیڑے ہوں گے ، ان میں سے ایک اپنے والد سے ملاقات کرے گا تو وہ اسے کپڑے کے کنارے سے پکڑ لے گا ، پھر وہ اس سے الگ نہیں ہو گا حتیٰ کہ وہ اسے جنت میں لے جائے گا ۔‘‘ مسلم ، احمد ، اور الفاظ مسند احمد کے ہیں ۔ رواہ مسلم و احمد ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ کی حدیث کے معاملے میں مرد حضرات سبقت لے گئے ، آپ ہمارے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیں ، جس روز ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں آپ ہمیں وہ تعلیم دیں جو اللہ نے آپ ﷺ کو دی ہے ، آپ نے فرمایا :’’ آپ فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہو جایا کریں ۔‘‘ پس وہ اکٹھی ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اللہ کی تعلیمات میں سے انہیں کچھ تعلیمات دیں ، پھر فرمایا :’’ تم میں سے جس کے تین بچے فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے حجاب بن جائیں گے ‘‘ ان میں سے کسی عورت نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اگر دو ہوں ؟ اس نے دو مرتبہ یہ بات کہی ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر دو ہوں ، اگر دو ہوں ، اگر دو ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس مسلمان والدین کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اللہ ان پر اپنا فضل و کرم فرماتے ہوئے انہیں جنت میں داخل فرمائے گا ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اگر دو ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر دو ہوں ‘‘ انہوں نے پھر عرض کیا ، اگر ایک ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر ایک ہو تب بھی ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اس ذات کی قسم : جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! نامکمل بچہ اپنی ماں کو اپنی آنول (ناف) سے کھینچ کر جنت میں لے جائے گا ، بشرطیکہ وہ اس (کی وفات) پر صبر کرے ۔‘‘ احمد ، ابن ماجہ نے ((والذی نفسی بیدہ)) سے آخر تک حدیث روایت کی ہے ۔ ضعیف ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کے تین نا بالغ بچے فوت ہو جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے مضبوط حصار بن جائیں گے ۔‘‘ ابوذر ؓ نے عرض کیا : میرے دو بچے فوت ہوئے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دو بھی ۔‘‘ سیدالقراء ابومنذر ابی بن کعب ؓ نے عرض کیا ، میرا ایک بچہ فوت ہوا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک بھی ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ضعیف ۔
قرۃ مزنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں آیا کرتا تھا ، نبی ﷺ نے اسے فرمایا :’’ کیا تم اس سے محبت کرتے ہو ؟‘‘ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں جیسے اس سے محبت کرتا ہوں ویسے اللہ آپ سے محبت کرے ، نبی ﷺ نے اسے نہ پایا تو پوچھا :’’ ابن فلاں کو کیا ہوا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ فوت ہو گیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے جس دروازے پر جاؤ تو تم اسے وہاں اپنا منتظر پاؤ ؟‘‘ کسی آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا یہ اس شخص کے لیے خاص ہے یا ہم سب کے لیے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بلکہ تم سب کے لیے ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب نا مکمل پیدا ہونے والے بچے کے والدین کو جہنم میں داخل کیے جانے کا ارادہ کیا جائے گا تو وہ اپنے رب سے جھگڑا کرے گا ، تو اسے کہا جائے گا : اپنے رب سے جھگڑا کرنے والے نا مکمل بچے ! اپنے والدین کو جنت میں لے جا ، وہ اپنے آنول سے انہیں کھینچے گا حتیٰ کہ انہیں جنت میں لے جائے گا ۔‘‘ ضعیف ۔
ابو امامہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم ! اگر تو نے صدمے کی ابتدا پر ہی صبر کیا اور ثواب کی امید کی تو میں تیرے لیے جنت سے کم تر ثواب پر راضی نہیں ہوں گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابن ماجہ ۔
حسین بن علی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی مسلمان مرد یا مسلمان عورت کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے ، اور پھر اس (مصیبت کے واقع ہونے) کے طویل مدت بعد اسے نئے سرے سے یاد آ جائے اور وہ (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھ لے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اسے نئے سرے سے اتنا ہی ثواب عطا فرما دیتا ہے جتنا اس نے اس مصیبت کے واقع ہونے کے روز ثواب عطا کیا تھا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھے ، کیونکہ یہ بھی مصائب میں سے ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
ام درداء ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے ابو درداء ؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے ابو القاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :’’ عیسی ٰ ! میں تیرے بعد ایک امت بھیجنے والا ہوں ، جب انہیں کوئی پسندیدہ چیز ملے گی تو وہ اللہ کی حمد بیان کریں گے ، اور اگر کسی ناگوار چیز سے واسطہ پڑ گیا تو وہ ثواب کی امید کے ساتھ صبر کریں گے ، حالانکہ کوئی حلم و عقل نہیں ہو گی ، انہوں نے عرض کیا : میرے پروردگار ! یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ حلم و عقل نہ ہو ؟ فرمایا :’’ میں انہیں اپنے حلم و علم سے عطا کروں گا ۔‘‘ ضعیف ۔