انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے راستے میں پڑی ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا :’’ اگر مجھے اس کے صدقہ کے ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، حسن بن علی ؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لی اور اسے منہ میں ڈال لیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ٹھہرو ، ٹھہرو ۔‘‘ تاکہ وہ اسے پھینک دیں ، پھر فرمایا :’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبدالمطلب بن ربیعہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ صدقات تو لوگوں (کے مال کا) میل کچیل ہے ، اور یہ محمد (ﷺ) اور آل محمد کے لیے حلال نہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کوئی کھانے کی چیز پیش کی جاتی تو آپ ﷺ اس کے متعلق دریافت فرماتے :’’ کیا یہ ہدیہ ہے یا صدقہ ؟‘‘ اگر بتایا جاتا کہ صدقہ ہے تو آپ ﷺ اپنے صحابہ سے فرماتے :’’ تم کھاؤ ۔‘‘ اور آپ خود نہ کھاتے ، اور اگر بتایا جاتا کہ ہدیہ ہے تو آپ اپنا ہاتھ بڑھاتے اور ان کے ساتھ کھاتے ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، بریرہ ؓ کی وجہ سے تین احکام شریعت کا پتہ چلا ، انہیں آزاد کیا گیا تو انہیں اپنے خاوند کے متعلق اختیار دیا گیا ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ولاء (حق وراثت) آزاد کرنے والے کو ملے گا ۔‘‘ اور رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لائے تو ہنڈیا میں گوشت ابل رہا تھا ، پس روٹی اور گھر کا سالن آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں نے ہنڈیا میں گوشت نہیں دیکھا ؟ اہل خانہ نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، ضرور دیکھا ہے ، لیکن وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں دیا گیا ہے جبکہ آپ صدقہ تناول نہیں فرماتے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ اس کے لیے صدقہ ہے جبکہ ہمارے لیے ہدیہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر مجھے دستی کے گوشت کی دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں گا اور اگر مجھے دستی کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا جائے تو میں قبول کروں گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں یا ایک دو کھجوروں کی خاطر لوگوں سے سوال کرتا پھرے ، لیکن مسکین وہ ہے جو اس قدر خوشحال نہیں کہ وہ اسے بے نیاز کر دے اور اس کے متعلق پتہ بھی نہ چلے کہ اس پر صدقہ کیا جا سکے اور وہ لوگوں سے مانگے بھی نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو مخزوم قبیلے کے ایک شخص کو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تو اس نے ابورافع سے کہا ، آپ میرے ساتھ چلیں تاکہ آپ بھی اس میں سے حاصل کریں ، تو انہوں نے کہا : نہیں ، حتیٰ کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے دریافت کر لوں ، وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ، کیونکہ قوم کے آزاد کردہ غلام بھی انہی (قوم) کے زمرے میں آتے ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی مال دار شخص اور طاقت ور صحیح الخلقت شخص کے لیے صدقہ لینا حلال نہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی ۔
عبیداللہ بن عدی بن خیار بیان کرتے ہیں ، دو آدمیوں نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ اس وقت صدقہ تقسیم فرما رہے تھے ، انہوں نے آپ سے صدقہ کی درخواست کی تو آپ نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا تو آپ ﷺ نے ہمیں طاقت ور دیکھ کر فرمایا :’’ اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن اس میں کسی مال دار شخص اور کمائی کی طاقت رکھنے والے شخص کے لیے کوئی حصہ نہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ بوداؤد و النسائی ۔
عطاء بن یسار ؒ مرسل روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ پانچ اشخاص کے سوا کسی مال دار شخص کے لیے صدقہ حلال نہیں : اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ، صدقات وصول کرنے والا ، کسی شخص کو تاوان دینا پڑ جائے ، وہ شخص جو اپنے مال کے ذریعے اس (صدقہ کی چیز) کو خرید لے ، یا وہ شخص جس کا پڑوسی مسکین ہو اور اسے صدقہ دیا جائے اور وہ مسکین شخص مال دار شخص کو بطور ہدیہ بھیج دے ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک و ابوداؤد ۔
زیاد بن حارث صدائی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کی بیعت کی ، انہوں نے ایک طویل حدیث بیان کی ، ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، مجھے صدقہ میں سے کچھ دیں ، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ صدقات کے معاملے میں اللہ نے کسی نبی یا اس کے علاوہ کسی شخص کی تقسیم کے حکم کو پسند نہیں فرمایا ، بلکہ اس معاملے میں اس نے خود حکم فرمایا تو اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم فرمایا ، اگر تو تم بھی ان آٹھ اجزاء (مصارف) میں سے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں ۔‘‘ ضعیف ۔
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں ، عمر بن خطاب ؓ نے دودھ پیا تو وہ انہیں پسند آیا ، انہوں نے اس دودھ پلانے والے شخص سے پوچھا : یہ دودھ کہاں سے (حاصل کیا) ہے ؟ اس نے بتایا کہ وہ فلاں گھاٹ پر گیا تھا ، وہاں صدقہ کے کچھ اونٹ تھے اور وہ (چرواہے) انہیں پانی پلا رہے تھے ، انہوں نے ان کا دودھ دھویا تو میں نے اسے اپنے برتن میں ڈال لیا ، یہ وہ ہے ۔ عمر ؓ نے اپنا ہاتھ (حلق میں) ڈالا اور قے کر دی ۔ ضعیف ۔