عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ ایک روز میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا :’’ کیا تمہارے پاس (کھانے کے لیے) کوئی چیز ہے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا ، نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں پھر روزہ سے ہوں ۔‘‘ پھر آپ کسی روز ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہمیں حیس (کھجور ، گھی اور پنیر سے تیار کردہ حلوہ) ہدیہ کیا گیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے دکھاؤ ، میں نے صبح روزہ رکھا ہوا تھا ۔‘‘ آپ نے (اسے) کھا لیا ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ ام سلیم ؓ کے ہاں تشریف لائے تو انہوں نے کھجور اور گھی آپ کی خدمت میں پیش کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ گھی اور کھجوریں واپس اُن کے برتن میں ڈال دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں ۔‘‘ پھر آپ کھڑے ہوئے اور گھر کے ایک کونے میں نفل نماز ادا کی اور ام سلیم ؓ اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا فرمائی ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے جبکہ وہ روزہ سے ہو تو وہ کہے :’’میں روزہ سے ہوں ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے ، اگر وہ روزے سے ہو تو وہ دعا کرے اور اگر روزے سے نہ ہو تو کھانا کھا لے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ام ہانی ؓ بیان کرتی ہیں ، جب فتح مکہ کا دن تھا تو فاطمہ ؓ آئیں اور رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب بیٹھ گئیں ، جبکہ ام ہانی ؓ آپ کے دائیں جانب تھیں ، پس لونڈی برتن میں مشروب لائی اور اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا ، آپ نے اس سے نوش فرمایا ، بعد ازاں آپ نے برتن ام ہانی کو دیا تو انہوں نے اس سے پیا پھر انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے تو روزہ توڑ لیا ہے ، میں تو روزے سے تھی ، آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ کیا تم کوئی قضا دے رہی تھیں ؟‘‘ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر نفلی تھا تو پھر تمہارے لیے مضر نہیں ۔‘‘ ابوداؤد ، ترمذی ، دارمی ۔ احمد اور ترمذی کی ایک روایت اسی طرح ہے اور اس میں ہے : انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں تو روزہ سے تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نفلی روزہ دار اپنے نفس کا امیر ہے ، وہ اگر چاہے تو رکھے (یعنی پورا کرے) اور اگر چاہے تو افطار کر لے ۔‘‘ ضعیف ۔
امام زہری ، عروہ سے اور وہ عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : میں اور حفصہ ؓ روزہ سے تھیں ، ہمیں کھانا پیش کیا گیا تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اس میں سے کھا لیا ، حفصہ ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم دونوں روزہ سے تھیں ، ہمیں کھانا پیش کیا گیا تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اس میں سے کھا لیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کی جگہ کسی اور دن سے قضا کرو ۔‘‘ ضعیف ۔
ترمذی اور انہوں نے حفاظ کی جماعت کا ذکر کیا ، انہوں نے زہری عن عائشہ ؓ کی سند سے مرسل روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں عروہ کا ذکر نہیں کیا ، اور یہی زیادہ صحیح ہے ، اور امام ابوداؤد نے اسے عروہ کے آزاد کردہ غلام زمیل عن عروہ عن عائشہ ؓ کی سند سے روایت کیا ہے ۔
ام عمارہ بنت کعب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے تو انہوں نے آپ کے لیے کھانا منگوایا تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ کھاؤ ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، میں روزہ سے ہوں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب روزہ دار کے پاس کھایا جائے تو فرشتے اس کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کھانے والے (کھانے سے) فارغ ہو جاتے ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں، بلال ؓ ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ناشتہ کر رہے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بلال ! ناشتہ کر لو ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں روزہ سے ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہم اپنا رزق کھا رہے ہیں جبکہ بلال کا عمدہ رزق جنت میں ہے ، بلال ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب روزہ دار کے پاس کھایا جائے تو اس کی ہڈیاں تسبیح بیان کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ موضوع ۔